فاتحہ یعنی قرآن مجید کی تلاوت یا کلمہ شریف یا نفلی نمازوں یا کسی بھی بدنی یا مالی عبادتوں کا ثواب کسی دوسرے کو پہنچانا یہ جائز ہے اور اسی کو عام طور پر لوگ فاتحہ دینا اور فاتحہ دلانا کہتے ہیں زندوں کے ایصالِ ثواب سے مُردوں کو فائدہ پہنچتا ہے فقہ اور عقائد کی کتابوں مثلاً ہدایہ و شرح عقائد نسفیہ میں اس کا بیان موجود ہے۔ اس کو بدعت اور ناجائز کہنا جہالت اور ہٹ دھرمی ہے۔ حدیث سے بھی اس کا جائز ہونا ثابت ہے۔ چنانچہ حضرت سعد بن عُبادہ صحابی رضی اللہ تعالٰی عنہ کی والدہ کا جب انتقال ہو گیا تو انہوں نے عرض کیا کہ یارسول اللہ ! میری ماں کا انتقال ہو گیا ان کے لئے کونسا صدقہ افضل ہے ! حضور اقدس نے فرمایا پانی (بہترین صدقہ ہے۔ تو حضور کے فرمان کے مطابق) حضرت سعد رضی اللہ تعالٰی عنہ نے کنواں کھدوا دیا۔ (اور اُسے اپنی ماں کی طرف منسوب کرتے ہوئے) کہا کہ یہ کنواں سعد کی ماں کے لئے ہے۔ (یعنی اس کا ثواب ان کی رُوح کو ملے) (مشکوٰۃ ج1 ص169)
اسی طرح ایک دوسری حدیث میں ہے کہ ایک شخص نے عرض کیا۔ یارسول اللہ ! میری ماں کا اچانک انتقال ہو گیا اور وہ کسی بات کی وصّیت نہ کرسکی۔ میرا گُمان ہے کہ وہ انتقال کے وقت کچھ بول سکتی تو وہ صدقہ ضرور دیتی۔ تو اگر میں اس کی طرف سے صدقہ کردوں تو کیا اس کی رُوح کو ثواب پہنچے گا ! تو آپ نے ارشاد فرمایا کہ ہاں پہنچے گا۔ (مسلم جلد اول ص 324)
علانمہ نواوی رحمۃ اللہ تعالٰی علیہ نے اس حدیث کی شرح میں ارشاد فرمایا کہ
“اس حدیث سے ثابت ہوا کہ اگر میّت کی طرف سے صدقہ کیا جائے تو میت کو اس کا فائدہ اور ثواب پہنچتا ہے۔ اسی پر عُلماء کا اتفاق ہے۔“ (نواوی شرح مسلم ج1 ص324)
چنانچہ اسی ضمن میں رجب کے مہینے میں چاول یا گھیر پکا کر کونڈوں میں رکھتے ہیں اور حضرت جلال الدین بخاری رحمۃ اللہ تعالٰی علیہ کی فاتحہ دلاتے ہیں۔ اسی طرح ماہِ رجب میں حضرت امام جعفر صادق رحمۃ اللہ تعالٰی علیہ کو ایصالِ ثواب کرنے کیلئے پُوریوں کے کونڈے بھرے جاتے ہیں۔ یہ سب جائز اور ثواب کے کام ہیں مگر کونڈوں کی فاتحہ میں جاہلوں کا یہ فعل مذموم اور نری جہالت ہے کہ جہاں کونڈوں کی فاتحہ ہوتی ہے وہیں کھلاتے ہیں۔ وہاں سے ہٹنے نہیں دیتے۔ یہ پابندی غلط اور بیجا ہے۔ مگر یہ جاہلوں کا طریقہ عمل ہے پڑھے لکھے لوگوں میں یہ پابندی نہیں۔ اسی طرح کونڈوں کی فاتحہ کے وقت ایک کتاب “داستان عجیب“ لوگ پڑھتے ہیں۔ اس میں جو کچھ لکھا ہے اُس کا کوئی ثبوت نہیں۔ لٰہذا اس کو نہیں پڑھنا چاہئیے مگر فاتحہ دلانا چاہئیے کہ یہ جائز اور ثواب کا کام ہے۔
اسی طرح حضرت غوث اعظم رحمۃ اللہ تعالٰی علیہ و حضرت خواجہ معین الدین چشتی رحمۃ اللہ تعالٰی علیہ و حضرت خواجہ بہاءالدین نقشبند رحمۃ اللہ تعالٰی علیہ و حضرت خواجہ شہاب الدین سُہروردی رحمۃ اللہ تعالٰی علیہ وغیرہ تمام بزرگان دین کی فاتحہ دلانا جائز اور ثواب کا کام ہے۔ جو لوگ ان بزرگوں کی فاتحہ سے منع کرتے ہیں وہ در حقیقت ان بزرگوں کے دشمن ہیں۔ لٰہذا ان کی باتوں پر کان نہیں دھرنا چاہئیے۔ نہ ان لوگوں سے میل جول رکھنا چاہئیے۔ بلکہ نہایت مضبوطی کے ساتھ اپنے مذہب اہل سنّت و جماعت پر قائم رہنا چاہئیے کہ یہی مذہب حق ہے اور اس کے سوا جتنے فرقے ہیں وہ سب صراطِ مستقیم سے بہکے اور بھٹکے ہوئے ہیں۔ خدا وند کریم سب کو اہل سنّت و جماعت کے مذہب پر قائم رکھے۔ اور اسی مذہب پر خاتمہ بالخیر فرمائے۔
آمین یارب العالمین بحرمۃ النبی الامین وآلہ واصحابہ اجمعیں۔
No comments:
Post a Comment