Sunday, August 21, 2011


واہ کیا جود و کرم ہے شہ بطحی تیرا
کوئی دنیائے عطا میں نہیں ہمتا تیرا
ہو جو حاتم کو میسر یہ نظارا تیرا
کہہ اٹھے دیکھ کے بخشش میں یہ رتبہ تیرا
واہ کیا جود و کرم ہے شہ بطحٰی تیرا
نہیں سنتا ہی نہیں مانگنے والا تیرا

کچھ بشر ہونے کے ناتے تجھے خود سا جانیں
اور کچھ محض پیامی ہی خدا کا جانیں
اِن کی اوقات ہی کیا ہے کہ یہ اتنا جانیں
فرش والے تری عظمت کا علو کیا جانیں
خسروا عرش پہ اڑتا ہے پھریرا تیرا

جو تصور میں ترا پیکر زیبا دیکھیں
روئے والشمس تکیں ، مطلع سیما دیکھیں
کیوں بھلا اب وہ کسی اور کا چہرا دیکھیں
تیرے قدموں میں جو ہیں غیر کا منہ کیا دیکھیں
کون نظروں پہ چڑھے دیکھ کے تلوا تیرا

مجھ سے ناچیز پہ ہے تیری عنایت کتنی
تو نے ہر گام پہ کی میری حمایت کتنی
کیا بتاوں تری رحمت میں ہے وسعت کتنی
ایک میں کیا مرے عصیاں کی حقیقت کتنی
مجھ سے سو لاکھ کو کافی ہے اشارہ تیرا

کئی پشتوں سے غلامی کا یہ رشتہ ہے بحال
یہیں طفلی و جوانی کے بِتائے مہہ و سال
اب بوڑھاپے میں خدارا ہمیں یوں در سے نہ ٹال
تیرے ٹکڑوں پہ پلے غیر کی ٹھوکر پہ نہ ڈال
جھڑکیاں کھائیں کہاں چھوڑ کے صدقہ تیرا

غمِ دوراں سے گھبرائیے ، کس سے کہیے
اپنی الجھن کسے بتلائیے ، کس سے کہیے
چیر کر دل کسے دکھلائیے ، کس سے کہیے
کس کا منہ تکیے ، کہاں جائیے ، کس سے کہیے
تیرے ہی قدموں پہ مٹ جائے یہ پالا تیرا

نذرِ عشاقِ نبی ہے یہ مرا حرفِ غریب
منبرِ وعظ پر لڑتے رہیں آپس میں خطیب
یہ عقیدہ رہے اللہ کرے مجھ کو نصیب
میں تو مالک ہی کہوں گا کہ ہو مالک کے حبیب
یعنی محبوب و محب میں نہیں میرا تیرا

خوگرِ قربت و دیدار پہ کیسی گزرے
کیا خبر اس کے دلِ زار پہ کیسی گزرے
ہجر میں اس ترے بیمار پہ کیسی گزرے
دور کیا جانیے بدکار پہ کیسی گزرے
تیرے ہی در پہ مرے بیکس و تنہا تیرا

تجھ سے ہر چند وہ ہیں قدر و فضائل میں رفیع
کر نصیر آج مگر فکرِ رضا کی توسیع
پاس ہے اس کے شفاعت کا وسیلہ بھی وقیع
تیری سرکار میں لاتا ہے رضا اس کو شفیع
جو مرا غوث ہے اور لاڈلا بیٹا تیرا

♥♥♥الصلواة والسلام عليک يارسول الله♥♥♥
♥♥♥الصلواة والسلام عليک ياحبيب الله♥♥♥
~~~خرم رشید~~~
لو مدینے کی تجلی سے لگائے ہوئے ہیں
دل کو ہم مطلع انوار بنائے ہوئے ہیں

اک جھلک آج دکھا گنبدِ خضری کے مکیں
کچھ بھی ہے دور سے دیدار کو آئے ہوئے ہیں

سر پہ رکھ دیجے ذرا دستِ تسلی آقا
غم کے مارے ہیں زمانے کے ستائے ہوئے ہیں

بوسہ در سے نہ روک ان کو تو اب اے دربان
خود نہیں آئے یہ مہمان بلائے ہوئے ہیں

نام آنے سے ابوبکر و عمر کا لب پر
کیوں بگڑتا ہے ، وہ پہلو میں سلائے ہوئے ہیں

حاضر و ناظر و نور و بشر و غیب کو چھوڑ
شکر کر وہ تیرے عیبوں کو چھپائے ہوئے ہیں

کٹ گیا ہے تیری تعلیم سے رشتہ اپنا
صرف رسم و رہِ دنیا ہی نبھائے ہوئے ہیں

قبر کی نیند سے اٹھنا کوئی آسان نہ تھا
ہم تو محشر میں انہیں دیکھنے آئے ہوئے ہیں

تیری نسبت کی بدولت ہی تو ہم جیسے لوگ
کفر کے دور میں ایمان بچائے ہوئے ہیں

کیوں نہ پلڑا تیرے اعمال کا بھاری ہو نصیر
اب تو میزان پہ سرکار بھی آئے ہوئے ہیں
درگزر کی خو طبیعت میں کرم پیکر میں ہے
ہو بہو سیرت محمّد (صلی اللہ علیہ وسلم) کی تیرے پیکر میں ہے

نۓ حصول ملک میں نۓ جمع مال و زر میں ہے
جو سکون زندگی مداحی حیدر میں ہے

خان شاہی کے متائم میں کہا وہ ارتداز
جو مزہ لانے جمی کا حیدری لنگر میں ہے

مرتضیٰ مولود کعبہ والد سبطین بھی
اس بھی بڑ کر سعادت یہ کے زھرا گھر میں ہے

دے کر بستر کر دیا تھا فیصلہ ہجرت کی شب
عقل کا اندھا ابھی تک ترتیب کے چکر میں ہے

دولت دنیا امیر شام رکھتا ہے تو کیا
علم و حکمت کا خزینہ قبضہ حیدر میں ہے

کج گناہوں کو بھلا خاطر میں کیا لائے نصیر
بے نیازی ان سے بڑ کر اس تیرے چاکر میں ہے

وارث علوم مہر علی پیر سید نصیر الدین نصیر گیلانی رحمتہ الله علیہ♥

نہ گل کی تمنا نہ شوق چمن ہے یہ دل حب آل نبی میں مگن ہے
حسین و حسن ہیں وہ پیکر کے جن میں بتولی نجابت رسولی چلن ہے
میرے سر کو سودائے زھرا و حیدر میرے دل میں عشق رسول ضمن ہے
تصور میں ہےمیرے سجاد و زینب نگاہوں میں روئے حسین و حسن ہے
سکینہ کی وہ پیاس وہ ضبط گریہ کہ نہرے فرات آج بھی نو حزن ہے
وہ معصوم اصغر کی معصوم ہچکی اسی غم کے سکتے میں چرخے کہن ہے
لہو میں ادھر تو نہایا ہے اصغر ادھر تیرا بابا بھی خونی کفن ہے
نہ بھولے گی زینب کو شام غریباں کہ بھائی کھو کر لٹی اک بہن ہے
وہ زینب جو کل تھی مدینے کی مالک وہ اب کربلا میں غریب الوطن ہے
کہا ماں نے اکبر کے قاتل سے رک جا شبیہ محمّد ہے نازک بدن ہے
یہ کیوں محو گریہ محفل کی محفل یہاں کیا کوئی ذکر دارو رسن ہے
دکھا دے جھلک اب تو اے ماہ زھرا کہے منتظر منتظر انجمن ہے
کھلے پھول ہیں جس میں زھرا کے ہر سو محمّد کا بھی کیا مہکتا چمن ہے
ستم سہہ کے بھی انکے تیور نہ بدلے وہی تمکنت ہے وہی بانکپن ہے
حسین ابن زھرا کا مکھڑا تو دیکھو علی کی وجاہت ہے نبی کی پبھن ہے
ثنا کیجئے کھل کے آل آبا کی کہ ذکر انکا خود آبروے سخن ہے
نہ کیوں مجھ پر اترائے جادو بیانی کہ منہ میں علی کا لہاب دھن ہے
نصیر اب میں کیوں مانگنے دور جاؤں یہ میں ہوں یہ دروازہ پنجتن ہے

چراغ گولڑہ علامہ پیر سید نصیر الدین نصیر گیلانی رحمتہ الله علیہ♥

ازل سے میرے مقدر میں ہے ولائے حسن A.S
رہے گی سایہ فگن تاابد ردائے حسن a.s

یہ حال ہے میرے دل کا بہ فیض شاہ ہدا
کبھی حسین پہ قرباں کبھی فدائے حسن A.S

وہ ذات پاک ہے ابن علی A.S و سبط نبی صلی اللہ علیہ وسلم
...میری نگاہ کا سرمہ ہے خاک پائے حسن A.S

عجب نہیں کہ مجھے خلد میں جگہ مل جائے
بہ فیض سرور کون و مکاں برائے حسن A.S

کسی بھی شے کی کمی ہے نہ آرزو نہ طلب
نصیر فضل خدا سے ہوں میں گدائے حسن A.S





نکل گئے ہیں خرد کی حدوں سے دیوانے
اب اہلِ ہوش سے کہہ دو نہ آئیں سمجھانے

بساطِ بزم الٹ کر کہاں گیا ساقی
فضا خموش ، سُبُو چپ ، اداس پیمانے

یہ کس کے غم نے دلوں کا قرار لُوٹ لیا
یہ کس کی یاد میں سر پھوڑتے ہیں دیوانے

بھری بہار کا منظر ابھی نگاہ میں تھا
مری نگاہ کو کیا ہوگیا خدا جانے

ہے کون بر لبِ ساحل ، کہ پیشوائی کو
قدم اُٹھائے بہ اندازِ موج ، دریا ، نے

تمام شہر میں اک درد آشنا نہ ملا
بسائے اِس لئے اہلِ جنوں نے ویرانے

نہ اب وہ جلوہ یوسف نہ مصر کا بازار
نہ اب وہ حسن کے تیور ، نہ اب وہ دیوانے

نہ حرفِ حق ، نہ وہ منصور کی زباں ، نہ وہ دار
نہ کربلا ، نہ وہ کٹتے سروں کے نذرانے

نہ بایزید ، نہ شبلی ، نہ اب جنید کوئی
نہ اب و سوز ، نہ آہیں ، نہ ہاوہو خانے

خیال و خواب کی صورت بکھر گیا ماضی
نہ سلسلے نہ وہ قصے نہ اب وہ افسانے

نہ قدر داں ، نہ کوئی ہم زباں ، نہ انساں دوست
فضائے شہر سے بہتر ہیں اب تو ویرانے

بدل گئے ہیں تقاضے مزاجِ وقت کے ساتھ
نہ وہ شراب ، نہ ساقی ، نہ اب وہ میخانے

تمام بند جُنوں توڑ بھی گیا ، لیکن
انا کے جال میں جکڑے ہوئے ہیں فرزانے

یہ انقلاب کہاں آسماں نے دیکھا تھا
الجھ رہے ہیں غمِ زندگی سے دیوانے

ہر ایک اپنے ہی سود و زیاں کی فکر میں ہے
کوئی تو ہو ، جو مرے دل کا درد پہچانے

ترا وجود غنیمت ہے پھر بھی اے ساقی!
کہ ہوگئے ہیں پھر آباد آج میخانے

وہی ہجوم ، وہی رونقیں ، وہی میکش
وہی نشہ ، وہی مستی ، وہی طرب خانے

جبیں کو در پہ ترے رکھ دیا یہی کہہ کر
یہ جانے اور ترا سنگِ آستاں جانے

اُٹھیں گے پی کے تری مے نواز آنکھوں سے
یہ طے کئے ہوئے بیٹھے ہیں آج دیوانے

ہے تیری ذات وہ اک شمعِ انجمن افروز
کہ جس کی لو پہ لپکتے رہیں گے پروانے

کوئی نشاط کا ساماں کوئی طرب کی سبیل
لگی ہے پھر سرِ میخانہ بدلیاں چھانے

تو بولتا ہے تو چلتی ہے نبضِ میخانہ
تو دیکھتا ہے تو کرتے ہیں رقص پروانے

یہ مستیاں نہیں جام و سُبو کے حصے میں
تیری نگاہ سے پتے ہیں تیرے دیوانے

نصیر ! اشک تو پلکوں پہ سب نے دیکھ لیے
گزر رہی ہے جو دل پر ، وہ کوئی کیا جانے

از سید نصیر الدین نصیر رحمۃ اللہ علیہ

♥♥♥الصلواة والسلام عليک يارسول الله♥♥♥
♥♥♥الصلواة والسلام عليک ياحبيب الله♥♥♥
~~~خرم رشید~~~