لو مدینے کی تجلی سے لگائے ہوئے ہیں
دل کو ہم مطلع انوار بنائے ہوئے ہیں
اک جھلک آج دکھا گنبدِ خضری کے مکیں
کچھ بھی ہے دور سے دیدار کو آئے ہوئے ہیں
سر پہ رکھ دیجے ذرا دستِ تسلی آقا
غم کے مارے ہیں زمانے کے ستائے ہوئے ہیں
بوسہ در سے نہ روک ان کو تو اب اے دربان
خود نہیں آئے یہ مہمان بلائے ہوئے ہیں
نام آنے سے ابوبکر و عمر کا لب پر
کیوں بگڑتا ہے ، وہ پہلو میں سلائے ہوئے ہیں
حاضر و ناظر و نور و بشر و غیب کو چھوڑ
شکر کر وہ تیرے عیبوں کو چھپائے ہوئے ہیں
کٹ گیا ہے تیری تعلیم سے رشتہ اپنا
صرف رسم و رہِ دنیا ہی نبھائے ہوئے ہیں
قبر کی نیند سے اٹھنا کوئی آسان نہ تھا
ہم تو محشر میں انہیں دیکھنے آئے ہوئے ہیں
تیری نسبت کی بدولت ہی تو ہم جیسے لوگ
کفر کے دور میں ایمان بچائے ہوئے ہیں
کیوں نہ پلڑا تیرے اعمال کا بھاری ہو نصیر
اب تو میزان پہ سرکار بھی آئے ہوئے ہیںدرگزر کی خو طبیعت میں کرم پیکر میں ہے
ہو بہو سیرت محمّد (صلی اللہ علیہ وسلم) کی تیرے پیکر میں ہے
نۓ حصول ملک میں نۓ جمع مال و زر میں ہے
جو سکون زندگی مداحی حیدر میں ہے
خان شاہی کے متائم میں کہا وہ ارتداز
جو مزہ لانے جمی کا حیدری لنگر میں ہے
مرتضیٰ مولود کعبہ والد سبطین بھی
اس بھی بڑ کر سعادت یہ کے زھرا گھر میں ہے
دے کر بستر کر دیا تھا فیصلہ ہجرت کی شب
عقل کا اندھا ابھی تک ترتیب کے چکر میں ہے
دولت دنیا امیر شام رکھتا ہے تو کیا
علم و حکمت کا خزینہ قبضہ حیدر میں ہے
کج گناہوں کو بھلا خاطر میں کیا لائے نصیر
بے نیازی ان سے بڑ کر اس تیرے چاکر میں ہے
وارث علوم مہر علی پیر سید نصیر الدین نصیر گیلانی رحمتہ الله علیہ♥
نہ گل کی تمنا نہ شوق چمن ہے یہ دل حب آل نبی میں مگن ہے
حسین و حسن ہیں وہ پیکر کے جن میں بتولی نجابت رسولی چلن ہے
میرے سر کو سودائے زھرا و حیدر میرے دل میں عشق رسول ضمن ہے
تصور میں ہےمیرے سجاد و زینب نگاہوں میں روئے حسین و حسن ہے
سکینہ کی وہ پیاس وہ ضبط گریہ کہ نہرے فرات آج بھی نو حزن ہے
وہ معصوم اصغر کی معصوم ہچکی اسی غم کے سکتے میں چرخے کہن ہے
لہو میں ادھر تو نہایا ہے اصغر ادھر تیرا بابا بھی خونی کفن ہے
نہ بھولے گی زینب کو شام غریباں کہ بھائی کھو کر لٹی اک بہن ہے
وہ زینب جو کل تھی مدینے کی مالک وہ اب کربلا میں غریب الوطن ہے
کہا ماں نے اکبر کے قاتل سے رک جا شبیہ محمّد ہے نازک بدن ہے
یہ کیوں محو گریہ محفل کی محفل یہاں کیا کوئی ذکر دارو رسن ہے
دکھا دے جھلک اب تو اے ماہ زھرا کہے منتظر منتظر انجمن ہے
کھلے پھول ہیں جس میں زھرا کے ہر سو محمّد کا بھی کیا مہکتا چمن ہے
ستم سہہ کے بھی انکے تیور نہ بدلے وہی تمکنت ہے وہی بانکپن ہے
حسین ابن زھرا کا مکھڑا تو دیکھو علی کی وجاہت ہے نبی کی پبھن ہے
ثنا کیجئے کھل کے آل آبا کی کہ ذکر انکا خود آبروے سخن ہے
نہ کیوں مجھ پر اترائے جادو بیانی کہ منہ میں علی کا لہاب دھن ہے
نصیر اب میں کیوں مانگنے دور جاؤں یہ میں ہوں یہ دروازہ پنجتن ہے
چراغ گولڑہ علامہ پیر سید نصیر الدین نصیر گیلانی رحمتہ الله علیہ♥
ازل سے میرے مقدر میں ہے ولائے حسن A.S
رہے گی سایہ فگن تاابد ردائے حسن a.s
یہ حال ہے میرے دل کا بہ فیض شاہ ہدا
کبھی حسین پہ قرباں کبھی فدائے حسن A.S
وہ ذات پاک ہے ابن علی A.S و سبط نبی صلی اللہ علیہ وسلم
...میری نگاہ کا سرمہ ہے خاک پائے حسن A.S
عجب نہیں کہ مجھے خلد میں جگہ مل جائے
بہ فیض سرور کون و مکاں برائے حسن A.S
کسی بھی شے کی کمی ہے نہ آرزو نہ طلب
نصیر فضل خدا سے ہوں میں گدائے حسن A.S
No comments:
Post a Comment