Sunday, August 21, 2011


واہ کیا جود و کرم ہے شہ بطحی تیرا
کوئی دنیائے عطا میں نہیں ہمتا تیرا
ہو جو حاتم کو میسر یہ نظارا تیرا
کہہ اٹھے دیکھ کے بخشش میں یہ رتبہ تیرا
واہ کیا جود و کرم ہے شہ بطحٰی تیرا
نہیں سنتا ہی نہیں مانگنے والا تیرا

کچھ بشر ہونے کے ناتے تجھے خود سا جانیں
اور کچھ محض پیامی ہی خدا کا جانیں
اِن کی اوقات ہی کیا ہے کہ یہ اتنا جانیں
فرش والے تری عظمت کا علو کیا جانیں
خسروا عرش پہ اڑتا ہے پھریرا تیرا

جو تصور میں ترا پیکر زیبا دیکھیں
روئے والشمس تکیں ، مطلع سیما دیکھیں
کیوں بھلا اب وہ کسی اور کا چہرا دیکھیں
تیرے قدموں میں جو ہیں غیر کا منہ کیا دیکھیں
کون نظروں پہ چڑھے دیکھ کے تلوا تیرا

مجھ سے ناچیز پہ ہے تیری عنایت کتنی
تو نے ہر گام پہ کی میری حمایت کتنی
کیا بتاوں تری رحمت میں ہے وسعت کتنی
ایک میں کیا مرے عصیاں کی حقیقت کتنی
مجھ سے سو لاکھ کو کافی ہے اشارہ تیرا

کئی پشتوں سے غلامی کا یہ رشتہ ہے بحال
یہیں طفلی و جوانی کے بِتائے مہہ و سال
اب بوڑھاپے میں خدارا ہمیں یوں در سے نہ ٹال
تیرے ٹکڑوں پہ پلے غیر کی ٹھوکر پہ نہ ڈال
جھڑکیاں کھائیں کہاں چھوڑ کے صدقہ تیرا

غمِ دوراں سے گھبرائیے ، کس سے کہیے
اپنی الجھن کسے بتلائیے ، کس سے کہیے
چیر کر دل کسے دکھلائیے ، کس سے کہیے
کس کا منہ تکیے ، کہاں جائیے ، کس سے کہیے
تیرے ہی قدموں پہ مٹ جائے یہ پالا تیرا

نذرِ عشاقِ نبی ہے یہ مرا حرفِ غریب
منبرِ وعظ پر لڑتے رہیں آپس میں خطیب
یہ عقیدہ رہے اللہ کرے مجھ کو نصیب
میں تو مالک ہی کہوں گا کہ ہو مالک کے حبیب
یعنی محبوب و محب میں نہیں میرا تیرا

خوگرِ قربت و دیدار پہ کیسی گزرے
کیا خبر اس کے دلِ زار پہ کیسی گزرے
ہجر میں اس ترے بیمار پہ کیسی گزرے
دور کیا جانیے بدکار پہ کیسی گزرے
تیرے ہی در پہ مرے بیکس و تنہا تیرا

تجھ سے ہر چند وہ ہیں قدر و فضائل میں رفیع
کر نصیر آج مگر فکرِ رضا کی توسیع
پاس ہے اس کے شفاعت کا وسیلہ بھی وقیع
تیری سرکار میں لاتا ہے رضا اس کو شفیع
جو مرا غوث ہے اور لاڈلا بیٹا تیرا

♥♥♥الصلواة والسلام عليک يارسول الله♥♥♥
♥♥♥الصلواة والسلام عليک ياحبيب الله♥♥♥
~~~خرم رشید~~~
لو مدینے کی تجلی سے لگائے ہوئے ہیں
دل کو ہم مطلع انوار بنائے ہوئے ہیں

اک جھلک آج دکھا گنبدِ خضری کے مکیں
کچھ بھی ہے دور سے دیدار کو آئے ہوئے ہیں

سر پہ رکھ دیجے ذرا دستِ تسلی آقا
غم کے مارے ہیں زمانے کے ستائے ہوئے ہیں

بوسہ در سے نہ روک ان کو تو اب اے دربان
خود نہیں آئے یہ مہمان بلائے ہوئے ہیں

نام آنے سے ابوبکر و عمر کا لب پر
کیوں بگڑتا ہے ، وہ پہلو میں سلائے ہوئے ہیں

حاضر و ناظر و نور و بشر و غیب کو چھوڑ
شکر کر وہ تیرے عیبوں کو چھپائے ہوئے ہیں

کٹ گیا ہے تیری تعلیم سے رشتہ اپنا
صرف رسم و رہِ دنیا ہی نبھائے ہوئے ہیں

قبر کی نیند سے اٹھنا کوئی آسان نہ تھا
ہم تو محشر میں انہیں دیکھنے آئے ہوئے ہیں

تیری نسبت کی بدولت ہی تو ہم جیسے لوگ
کفر کے دور میں ایمان بچائے ہوئے ہیں

کیوں نہ پلڑا تیرے اعمال کا بھاری ہو نصیر
اب تو میزان پہ سرکار بھی آئے ہوئے ہیں
درگزر کی خو طبیعت میں کرم پیکر میں ہے
ہو بہو سیرت محمّد (صلی اللہ علیہ وسلم) کی تیرے پیکر میں ہے

نۓ حصول ملک میں نۓ جمع مال و زر میں ہے
جو سکون زندگی مداحی حیدر میں ہے

خان شاہی کے متائم میں کہا وہ ارتداز
جو مزہ لانے جمی کا حیدری لنگر میں ہے

مرتضیٰ مولود کعبہ والد سبطین بھی
اس بھی بڑ کر سعادت یہ کے زھرا گھر میں ہے

دے کر بستر کر دیا تھا فیصلہ ہجرت کی شب
عقل کا اندھا ابھی تک ترتیب کے چکر میں ہے

دولت دنیا امیر شام رکھتا ہے تو کیا
علم و حکمت کا خزینہ قبضہ حیدر میں ہے

کج گناہوں کو بھلا خاطر میں کیا لائے نصیر
بے نیازی ان سے بڑ کر اس تیرے چاکر میں ہے

وارث علوم مہر علی پیر سید نصیر الدین نصیر گیلانی رحمتہ الله علیہ♥

نہ گل کی تمنا نہ شوق چمن ہے یہ دل حب آل نبی میں مگن ہے
حسین و حسن ہیں وہ پیکر کے جن میں بتولی نجابت رسولی چلن ہے
میرے سر کو سودائے زھرا و حیدر میرے دل میں عشق رسول ضمن ہے
تصور میں ہےمیرے سجاد و زینب نگاہوں میں روئے حسین و حسن ہے
سکینہ کی وہ پیاس وہ ضبط گریہ کہ نہرے فرات آج بھی نو حزن ہے
وہ معصوم اصغر کی معصوم ہچکی اسی غم کے سکتے میں چرخے کہن ہے
لہو میں ادھر تو نہایا ہے اصغر ادھر تیرا بابا بھی خونی کفن ہے
نہ بھولے گی زینب کو شام غریباں کہ بھائی کھو کر لٹی اک بہن ہے
وہ زینب جو کل تھی مدینے کی مالک وہ اب کربلا میں غریب الوطن ہے
کہا ماں نے اکبر کے قاتل سے رک جا شبیہ محمّد ہے نازک بدن ہے
یہ کیوں محو گریہ محفل کی محفل یہاں کیا کوئی ذکر دارو رسن ہے
دکھا دے جھلک اب تو اے ماہ زھرا کہے منتظر منتظر انجمن ہے
کھلے پھول ہیں جس میں زھرا کے ہر سو محمّد کا بھی کیا مہکتا چمن ہے
ستم سہہ کے بھی انکے تیور نہ بدلے وہی تمکنت ہے وہی بانکپن ہے
حسین ابن زھرا کا مکھڑا تو دیکھو علی کی وجاہت ہے نبی کی پبھن ہے
ثنا کیجئے کھل کے آل آبا کی کہ ذکر انکا خود آبروے سخن ہے
نہ کیوں مجھ پر اترائے جادو بیانی کہ منہ میں علی کا لہاب دھن ہے
نصیر اب میں کیوں مانگنے دور جاؤں یہ میں ہوں یہ دروازہ پنجتن ہے

چراغ گولڑہ علامہ پیر سید نصیر الدین نصیر گیلانی رحمتہ الله علیہ♥

ازل سے میرے مقدر میں ہے ولائے حسن A.S
رہے گی سایہ فگن تاابد ردائے حسن a.s

یہ حال ہے میرے دل کا بہ فیض شاہ ہدا
کبھی حسین پہ قرباں کبھی فدائے حسن A.S

وہ ذات پاک ہے ابن علی A.S و سبط نبی صلی اللہ علیہ وسلم
...میری نگاہ کا سرمہ ہے خاک پائے حسن A.S

عجب نہیں کہ مجھے خلد میں جگہ مل جائے
بہ فیض سرور کون و مکاں برائے حسن A.S

کسی بھی شے کی کمی ہے نہ آرزو نہ طلب
نصیر فضل خدا سے ہوں میں گدائے حسن A.S





نکل گئے ہیں خرد کی حدوں سے دیوانے
اب اہلِ ہوش سے کہہ دو نہ آئیں سمجھانے

بساطِ بزم الٹ کر کہاں گیا ساقی
فضا خموش ، سُبُو چپ ، اداس پیمانے

یہ کس کے غم نے دلوں کا قرار لُوٹ لیا
یہ کس کی یاد میں سر پھوڑتے ہیں دیوانے

بھری بہار کا منظر ابھی نگاہ میں تھا
مری نگاہ کو کیا ہوگیا خدا جانے

ہے کون بر لبِ ساحل ، کہ پیشوائی کو
قدم اُٹھائے بہ اندازِ موج ، دریا ، نے

تمام شہر میں اک درد آشنا نہ ملا
بسائے اِس لئے اہلِ جنوں نے ویرانے

نہ اب وہ جلوہ یوسف نہ مصر کا بازار
نہ اب وہ حسن کے تیور ، نہ اب وہ دیوانے

نہ حرفِ حق ، نہ وہ منصور کی زباں ، نہ وہ دار
نہ کربلا ، نہ وہ کٹتے سروں کے نذرانے

نہ بایزید ، نہ شبلی ، نہ اب جنید کوئی
نہ اب و سوز ، نہ آہیں ، نہ ہاوہو خانے

خیال و خواب کی صورت بکھر گیا ماضی
نہ سلسلے نہ وہ قصے نہ اب وہ افسانے

نہ قدر داں ، نہ کوئی ہم زباں ، نہ انساں دوست
فضائے شہر سے بہتر ہیں اب تو ویرانے

بدل گئے ہیں تقاضے مزاجِ وقت کے ساتھ
نہ وہ شراب ، نہ ساقی ، نہ اب وہ میخانے

تمام بند جُنوں توڑ بھی گیا ، لیکن
انا کے جال میں جکڑے ہوئے ہیں فرزانے

یہ انقلاب کہاں آسماں نے دیکھا تھا
الجھ رہے ہیں غمِ زندگی سے دیوانے

ہر ایک اپنے ہی سود و زیاں کی فکر میں ہے
کوئی تو ہو ، جو مرے دل کا درد پہچانے

ترا وجود غنیمت ہے پھر بھی اے ساقی!
کہ ہوگئے ہیں پھر آباد آج میخانے

وہی ہجوم ، وہی رونقیں ، وہی میکش
وہی نشہ ، وہی مستی ، وہی طرب خانے

جبیں کو در پہ ترے رکھ دیا یہی کہہ کر
یہ جانے اور ترا سنگِ آستاں جانے

اُٹھیں گے پی کے تری مے نواز آنکھوں سے
یہ طے کئے ہوئے بیٹھے ہیں آج دیوانے

ہے تیری ذات وہ اک شمعِ انجمن افروز
کہ جس کی لو پہ لپکتے رہیں گے پروانے

کوئی نشاط کا ساماں کوئی طرب کی سبیل
لگی ہے پھر سرِ میخانہ بدلیاں چھانے

تو بولتا ہے تو چلتی ہے نبضِ میخانہ
تو دیکھتا ہے تو کرتے ہیں رقص پروانے

یہ مستیاں نہیں جام و سُبو کے حصے میں
تیری نگاہ سے پتے ہیں تیرے دیوانے

نصیر ! اشک تو پلکوں پہ سب نے دیکھ لیے
گزر رہی ہے جو دل پر ، وہ کوئی کیا جانے

از سید نصیر الدین نصیر رحمۃ اللہ علیہ

♥♥♥الصلواة والسلام عليک يارسول الله♥♥♥
♥♥♥الصلواة والسلام عليک ياحبيب الله♥♥♥
~~~خرم رشید~~~

Saturday, July 16, 2011

Hazrat Khawja Shams-ud-Din Sialvi

Hazrat Khawja Shams-ud-Din Sialvi was born in 1799 A.D.(1214 A.H). He was born of a very religious family. He descended from Hazrat Ali,the fourth caliph of Islam.
Long before his birth,a great saint of Multan ,Ghaus Baha -ul-Haq Zakarya Multani,while travelling to Bhera,got down from horse back when he was right at the place where now the great tomb of Hazrat Khwaja Shams-ud-din Sialvi is situated and picked handful of soil and kissed it. His deciples wre astonished by this gesture.Upon there insistence, he revealed to them, that a Ghaus would be born there.
He had become the hafiz of Quran(one who remembers Quran by heart) at the age of 7 years.He went to some of the renounced institutions to get religious education. He went as far as Kabul where he was awarded Sand-e-Hadith(certification of hadith). The most important of his journeys was to Taunsa Sharif (Distt. D.G Khan), where he becme a deciple of Hazrat Khawja Suleiman Taunsvi.
He went to Mecca twice to perform pilgrimage.He was a stanch follower of Quran and Sunnah. His teachings played an important role in reviving the spirit of Islam in Muslims in the wake of Missionary propaganda by christians and oppression by Sikhs.
He established an institute for religious education. He himself used to teach there. Some of his students went to become known Islamic scholars in the subcontinent.
The most well known his deciples were,
  • Hazrat Khawja Muazam-ud-din Muazamabadi
  • Hazrat Ameer Shah Bhervi
  • Hazrat Khawja Mehr Ali Shah Goladvi
  • Hazrat Khawja Syed Ghulam Haider Shah Jalalpuri
  • Hazrat Khawja Syed Muhammad Saeed Shah Zanjani Lahorvi
  • Hazrat Khawja Syed Muhammad Hasan Shah Gilani
  • Hazrat Khawja Syed Niaz Ali Gardezi
  • Hazrat Mirza Nawab Baig Delhvi
  • Hazrat Mulla Khushnud Yusafzai(Kabul)
Hazrat Khawja Shams-ud-din Sialvi died on 24th of Safar 1300 A.H( 4th of january 1883 A.D). He was buried in Sialsharif about 48 kilometers from Sargodha on Sargodha-Jhang road.
Hazrat Khawja Qamar-ud-din Sialvi
He was born on 24th Jumadi-ul-Awwal 1324 A.H in (7th July 1906) in Sialsharif (Distt.Sargodha) He was the eldest son of Hazrat Zia-ud-din Sialvi. He had learnt Quran when he was just 9. He went to a number of institutions to get religious education.The most important of these institution were situated in Mecc and Ajmer.
After completing his education he continued the mission of his forefathers of reviving the spirit of islam He tenaciously opposed British Raj and worked hard for establishment of a muslim state fot the muslims.The british did not like his working against the Raj. They offered him the title of "His Holiness"(the biggest spiritual and religious title in British Raj) for giving up his opposition which he turned down,and burnt the letter to ashes. As a penalty for his defiance his land was confiscated,he was stopped from making speech,and was thrown into jail. But he continued his opposition.
He became the president of Sargodha Muslim League.He went to all corners of subcontinent to vote fot Muslim Leafgue in te election of 1946. He particularly walked along with Pir of Zakori in NWFPto vote for Pakistan in the referandum of 1947. After the inception of pakistan,he wrote to Quaid-e-Azam to congratulate him and emphasize the need for promulgation of islamic laws. Replying his letter Quaid-e-Azam wrote "Efforts on part of Mashaikhs in thePakistan Movement are highly commendable. Rest assured Islamic laws will be promulgated in Pakistan"
In the Indo-Pak war of 1965 he donated all the ornaments of his family to Pakistan Army. In 1970 he became the president of Jamiat Ulema-i-Pakistan.Under his leadership the party fared very good in the election of 1970. He was nominated member of Islamic Idealogy Council,twice.Where he worked hard to Islamicize the current laws.
He died from a road accident on July 20th 1981(17th Ramadan).He was awrded Tamgha-e-Imtiaz(Medal of Distinction) by president of Pakistan in 1981.

    Monday, June 6, 2011

    ماہ رجب کی فضیلت :۔


    وجہ تسمیہ :۔ قمری تقویم (ہجری کیلنڈر) اسلامی سال کے ساتویں مہینہ کا نام رجب المرجب ہے اس کی وجہ تسمیہ یہ ہے کہ رجب ترجیب سے ماخوذ ہے اور ترجیب کے معنی تعظیم کرنا ہے۔ یہ حرمت والا مہینہ ہے اس مہینہ میں جدال و قتال نہیں ہوتے تھے اس لیے اسے "الاصم رجب" کہتے تھے کہ اس میں ہتھیاروں کی آوازیں نہیں سنی جاتیں۔ اس مہینہ کو "اصب" بھی کہا جاتا ہے کیوں کہ اس میں اللہ تعالیٰ اپنے بندوں پر رحمت و بخشش کے خصوصی انعام فرماتا ہے۔ اس ماہ میں عبادات اور دعائیں مستجاب ہوتی ہیں۔ دور جہالت میں مظلوم، ظالم کے لئے رجب میں بددعا کرتا تھا۔ (عجائب المخلوقات)

    ماہ رجب کی فضیلت :۔

    رجب ان چار مہینوں میں سے ایک ہے جن کو قرآن کریم نے ذکر فرمایا ہے :

    اِنَّ عِدَّۃَ الشُّہُوْرِ عِنْدَ اللّٰہِ اِثْنَا عَشَرَ شَھْرًا فِیْ کِتٰبِ اللّٰہِ یَوْمَ خَلَقَ السَّمٰوٰتِ وَ الْاَرْضِ مِنْھَا اَرْبَعَۃٌ حُرُمٌ ط ذٰلِکَ الدِّیْنُ الْقَیِّمُ فَلَا تُظْلِمُوْا فِیْھِنَّ اَنْفُسِکُمْ (پارہ ١٠، سورہ توبہ، آیت ٣٦)
    ترجمہ :۔"بے شک مہینوں کی گنتی اللہ کے نزدیک بارہ مہینے ہیں اللہ کی کتاب میں جب سے اس نے آسمان اور زمین بنائے ان میں چار حرمت والے ہیں یہ سیدھا دین ہے تو ان مہینوں میں اپنی جان پر ظلم نہ کرو"۔ (کنز الایمان)

    سرکار غوث الثقلین رضی اللہ عنہ لکھتے ہیں کہ "رجب کا ایک نام مطھر ہے۔ " (غنیتہ الطالبین ص ٣٥٣)

    نبی کریم صلی اللہ تعالیٰ علیہ والہ و صحبہ وسلم نے ارشاد فرمایا :۔ رجب اللہ تعالیٰ کا مہینہ ہے اور شعبان میرا مہینہ ہے اور رمضان میری امت کا مہینہ ہے ۔ (ما ثبت من السنۃ ص ١٧٠)

    ایک اور جگہ نبی کریم صلی اللہ تعالیٰ علیہ و الہ و صحبہ وسلم نے یوں ارشاد فرمایا :۔ رجب کی فضیلت تمام مہینوں پر ایسی ہے جیسے قرآن کی فضیلت تمام ذکروں (صحیفوں) کتابوں پر ہے اور تمام مہینوں پر شعبان کی فضیلت ایسی ہے جیسی محمد مصطفی صلی اللہ تعالیٰ علیہ و الہ و صحبہ وسلم کی فضیلت باقی تمام انبیائے کرام پر ہے اور تمام مہینوں پر رمضان کی فضیلت ایسی ہے جیسے اللہ تعالیٰ کی فضیلت تمام (مخلوق) بندوں پر ہے (ما ثبت من السنہ ، ص ١٧٣)

    رجب کی خصوصی فضیلت اور واقعہ معراج شریف

    حدیث شریف کے مطابق "رجب المرجب" اللہ کا مہینہ ہے۔ یہی وجہ ہے کہ اللہ تعالیٰ جل مجدہ نے اپنے محبوب سید المرسلین صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو اپنی حسن الوہیت و ربوبیت کی جلوہ گاہوں میں ستائیس (٢٧) رجب کی شب بلوا کر "معراج شریف" سے مشرف فرمایا۔ ستائیسویں شب میں آقائے دو جہاں علیہ الصلوۃ والسلام حضرت ام ہانی رضی اللہ تعالیٰ عنہا کے مکان (واقع بیت اللہ شریف کی دیواروں موسوم مستجار اور مستجاب کے کارنر رکن یمانی کے سامنے) میں تشریف فرما تھے اور یہیں حضرت جبرئیل امین علیہ السلام ستر یا اسی ہزار ملائکہ کی رفاقت میں رسول اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی خدمت میں حاضر ہوئے تھے، اس موقع پر حضرت جبرئیل علیہ السلام اور حضرت میکائیل علیہ السلام کے ذمہ اللہ تعالیٰ نے یہ کام سونپے کہ میرے محبوب کو براق پر سوار کرانے کے لئے اے جبرئیل تمہارے ذمہ رکاب تھامنا اور اے میکائیل تمہارے ذمہ لگام تھامنا ہے۔ سند المفسرین امام فخر الدین رازی رحمۃ اللہ علیہ نے لکھا ہے، " حضرت جبرئیل علیہ السلام کا براق کی رکاب تھامنے کا عمل، فرشتوں کے سجدہ کرنے سے بھی افضل ہے۔" (تفسیر کبیر جلد دوم صفحہ نمبر ٣٠١ مطبوعہ مصر)

    مکتبہ حقانیہ پشاور کی بددیانتی:۔ امام رازی رحمۃ اللہ علیہ کی متذکرہ تفسیر کبیر کا حوالہ مصری نسخہ سے پیش کیا گیا ہے، جب کہ مکتبہ حقانیہ پشاور (جسے علمائے دیوبند کی سرپرستی حاصل ہے) نے تفسیر کبیر شائع کی ہے۔ اس کی جلد دوم صفحہ ٤٤٥ میں عبارت میں تحریف کر کے یوں چھاپا ہے۔

    "ان جبرئیل علیہ السلام اخذ برکاب محمد صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم حتی ارکبہ علی البراق لیلۃ المعراج و ھذا یدل علی ان محمدا صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم افضل منہ"

    پہلی عبارت میں حضرت جبرئیل علیہ السلام کی خدمت کو "سجود ملائکہ سے افضل" قرار دیا ہے، جب کہ تحریف و بددیانتی کے بعد، "حضرت محمد مصطفی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو حضرت جبرئیل سے افضل" قرار دیا گیا ہے۔ حالانکہ یہ تو حقیقت ہے اس لئے کہ حضور علیہ الصلوۃ والسلام "سید المرسلین" ہے لہذا "سید الملائکہ" بھی ہیں حضرت جبرئیل سے افضل ہیں۔ اس میں کوئی کلام ہے ہی نہیں۔

    جشن معراج النبی اور ہماری ذمہ داریاں

    اسلامی بھائیوں اور بہنوں! جس طرح ہم ماہ ربیع الاول شریف میں جشن عید میلاد النبی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کا انعقاد کرتے ہیں ایسے ہی رجب شریف میں جشن معراج النبی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کا انعقاد کریں مساجد و مدارس ہی نہیں بلکہ اپنے گھروں میں بھی چراغاں کریں ، اجتماعات منعقد کریں، علمائے اہلسنّت کے مواعظ حسنہ (تقاریر) سننے کا اہتمام کریں، اپنے گھر میں اہل خانہ خصوصاً بچوں کو لے کر ادب کے ساتھ بیٹھ کر محفل منعقد کریں ، بچوں کو بتائیں کہ آج کی شب آقائے دو جہاں صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم لا مکاں کی اس منزل تک پہنچے جہاں مخلوق میں سے کسی کی رسائی نہیں اور بلا حجاب اللہ تعالیٰ کا دیدار عطا ہوا، اللہ تعالیٰ کی بے شمار نشانیوں کو ملاحظہ فرمایا، اللہ تعالیٰ جل شانہ کے اسمائ صفات کی تجلیات کے ظہور کے مقامات و طبقات سے گذر کر ان ہی صفات سے متصف ہو کر اللہ تعالیٰ کی ذات و صفات کے مظہر ہوئے، جنت و دوزخ کو ملاحظہ فرمایا، بعد از قیامت اور بعد از جزا سزا جو کچھ ہوگا آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے دیکھا اور یہ کمال اللہ تعالیٰ نے آپ کو ہمیشہ کے لیے عطا فرمایا، یعنی اللہ سبحانہ و تعالیٰ عزوجل نے ماضی و مستقبل (جو کچھ ہو چکا اور جو ہونے والا ہے ) کا علم عطا فرمایا جسے شرعی اصطلاح میں علم ما کان و ما یکون کہتے ہیں ۔ امت کے لیے شفاعت کا حق حاصل کیا، شب معراج میں انبیائ و مرسلین علیہم الصلوٰۃ و السلام اجمعین سے نہ صرف ملاقا ت کی بلکہ ان سب پر آپ اکی فضیلت واضح کرنے کے لیے امامت عظمیٰ و کبریٰ کا منصب آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم ہی کو عطا ہوا۔ نماز کی فرضیت کا حکم اللہ تعالیٰ عزاسمہ نے خاص اپنی حسن الوہیت و ربوبیت کی جلوہ گاہوں میں عطا کیا، اول پچاس نمازیں فرض ہوئیں پھر بتدریج کم ہوتے ہوتے پانچ باقی رہیں۔ نماز کی فرضیت و اہمیت سے بچوں کو آگاہ کریں۔ یہ بھی یاد رکھیں کہ معراج شریف کے سفر مقدس کے تین مرحلے ہیں۔

    اول ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ اسریٰ، یعنی مسجد حرام سے مسجد اقصیٰ تک۔
    دوم ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ معراج۔
    (حصہ اول )۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ یعنی مسجد اقصیٰ سے کہکشاؤں کا سفر آسمان اول تک ۔
    (حصہ دوم)۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ یعنی آسمان اول سے آسمان ہفتم اور سدرۃ المنتہیٰ تک۔
    سوم ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ اعراج، یعنی سدرۃ المنتہیٰ (حضرت جبریل امین علیہ السلام کا مقام آخر) سے لے کر عرش و کرسی اور لامکاں ، اللہ تعالیٰ جل شانہ کی حسن الوہیت ، جمال ربوبیت اور جلال تقدس و تجرد کی جلوہ گاہ تک۔

    خود بھی تلاوت قرآن کریں اور بچوں کو بھی ترجمہ اعلیٰ حضرت علیہ الرحمہ کنز الایمان کے ساتھ قرآن مجید کی تلاوت کا عادی بنائیں۔ معراج شریف سے متعلق مضامین والی آیات مقدسہ، سورئہ الاسرائ (بنی اسرائیل) اور سورئہ النجم کی تلاوت ضرور کریں۔ واقعہ معراج شریف سے متعلق بچوں کو بتائیں کہ یہ عقلوں کو دنگ کرنے والا سفر ایک لمحے میں ہوا۔

    چلے جب عرش کی جانب محمد تو ساکت ہوگئی تھی زندگی تک
    نہ تھی دریا کی موجوں میں روانی تھا ساکت ہر سمندر ہر ندی تک
    زمیں نے چھوڑ دی تھی اپنی گردش خلا میں انتظار روشنی تک
    رہا کس طرح بستر گرم ان کا محقق محو حیرت ہیں ابھی تک
    عناصر زندگی کے منجمد تھے شب اسریٰ میں ان کی واپسی تک
    نہیں سائنس میں ایسی مثالیں ازل کے روز سے پندرہ صدی تک ()

    شب معراج دیدار حق تعالیٰ


    اللہ تعالیٰ نے حضور صلی اللہ علیہ وسلم کو آسمانوں کی، جنت و دوزخ کی، سدرۃ المنتہیٰ کی، عرش الٰہی کی سیر کروائی اور اللہ تعالیٰ نے جہاں تک چاہا آپ نے سیر فرمائی، اس کی قدرت کی نشانیوں کا مشاہدہ فرمایا اور دیدار پرانوار کی نعمت لازوال سے مشرف ہوئے۔ جیسا کہ صحیح بخاری شریف میں حضرت انس رضی اللہ عنہ سے تفصیلی روایت منقول ہے روایت کا ایک حصہ ملاحظہ ہو: حتی جاء سدرۃ المنتھیٰ ودنا للجبار رب العزۃ فتدلی حتی کان منہ قاب قوسین او ادنی۔ یہاں تک کہ حضرت سیدنا محمد صلی اللہ علیہ وسلم سدرۃ المنتہیٰ پر آئے اور جبار رب العزت آپ کے قریب ہوا پھر اور قریب ہو ا یہاں تک کہ دو کمانوں کا فاصلہ رہ گیا یا اس سے بھی زیادہ نزدیک۔ (صحیح بخاری شریف، ج 2، کتاب التوحید، ص 1120 ، حدیث نمبر: 6963

    صحیح مسلم شریف میں روایت ہے: عن عبداللہ بن شقیق قال قلت لابی ذر لو رایت رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم لسألتہ فقال عن ای شیء کنت تسألہ قال کنت اسالہ ھل رایت ربک قال ابو ذر قد سالت فقال رایت نورا۔ حضرت عبداللہ بن شقیق رضی اللہ عنہ نے فرمایا کہ میں نے حضرت ابو ذر رضی اللہ عنہ سے کہا اگر مجھے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے دیدار کی سعادت حاصل ہوتی تو حضور صلی اللہ علیہ وسلم سے سوال کرتا، انہوں نے کہا تم کس چیز کے متعلق سوال کرتے؟ حضرت عبداللہ بن شقیق رضی اللہ عنہ نے عرض کیا: میں حضور صلی اللہ علیہ وسلم سے یہ سوال کرتا کہ کیا آپ نے اپنے رب کو دیکھا ہے؟ حضرت ابو ذر رضی اللہ عنہ نے فرمایا: میں نے آپ سے اس متعلق دریافت کیا تھا، حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: میں نے دیکھا، وہ نور ہی نور تھا۔(صحیح مسلم، ج 2، کتاب الایمان، ص 99 ، حدیث نمبر: 262

    جامع ترمذی شریف میں حدیث پاک ہے : عن عکرمۃ عن ابن عباس قال رای محمد ربہ قلت الیس اللہ یقول لا تدرکہ الابصار و ھو یدرک الابصار قال و یحک اذا تجلی بنورہ الذی ھو نورہ و قد راٰی محمد ربہ مرتین ھٰذا حدیث حسن غریب۔ عکرمہ بیان کرتے ہیں کہ حضرت سیدنا عبداللہ ابن عباس رضی اللہ عنہما نے فرمایا حضرت سیدنا محمد صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنے رب کو دیکھا ہے، میں نے عرض کیا: کیا اللہ تعالیٰ نے یہ نہیں فرمایا: ’’نگاہیں اس کا ادراک نہیں کرسکتیں اور وہ نگاہوں کا ادراک کرتا ہے، حضرت ابن عباس رضی اللہ عنہما نے فرمایا: تم پر افسوس ہے، یہ اس وقت ہے جب اللہ تعالیٰ اپنے اس نور کے ساتھ تجلی فرمائے جو اس کا نور ہے، یعنی غیر متناہی نور اور بے شک سیدنا محمد صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنے رب کو دو مرتبہ دیکھا ہے۔ یہ حدیث حسن غریب ہے۔ (جامع ترمذی شریف ، ج 2، ابواب التفسیر ص 164 ، حدیث نمبر: 3201

    عن ابن عباس فی قول اللہ تعالیٰ و لقد راہ نزلۃ اخری عند سدرۃ المنتہیٰ فاوحی الی عندہ ما اوحیٰ فکان قاب قوسین او ادنی قال ابن عباس قد راہ النبی صلی اللہ علیہ وسلم ھٰذا حدیث حسن۔ حضرت ابن عباس رضی اللہ عنہما نے ان آیات کی تفسیر میں فرمایا: ’’بے شک انہوں نے اس کو دوسری بار ضرور سدرۃ المنتہیٰ کے پاس دیکھا تو اللہ نے اپنے خاص بندہ کی طرف وہ وحی نازل کی جو اس نے کی، پھر وہ دو کمانوںکی مقدار نزدیک ہوا یا اس سے زیادہ‘‘ حضرت ابن عباس نے فرمایا نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنے رب کو دیکھا ہے۔ (جامع ترمذی شریف ، ج 2، ابواب التفسیر ص 164 ، حدیث نمبر: 3202 )۔

    مسند امام احمد میں یہ الفاظ مذکور ہیں: عن عکرمۃ عن ابن عباس قال رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم رایت ربی تبارک و تعالیٰ ۔ سیدنا عبداللہ ابن عباس رضی اللہ عنہما نے بیان فرمایا کہ حضرت رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا: میں نے اپنے رب تبارک و تعالیٰ کو دیکھا۔ یہ حدیث پاک مسند امام احمد میں دو جگہ مذکور ہے۔ (مسند امام احمد، حدیث نمبر: 2449-2502

    از: حضرت مولانامفتی سیدضیاء الدین نقشبندی قادری
    نائب شیخ الفقہ جامعہ نظامیہ وبانی ابوالحسنات اسلامک ریسرچ سنٹر

    کونڈوں کی فاتحہ


    فاتحہ یعنی قرآن مجید کی تلاوت یا کلمہ شریف یا نفلی نمازوں یا کسی بھی بدنی یا مالی عبادتوں کا ثواب کسی دوسرے کو پہنچانا یہ جائز ہے اور اسی کو عام طور پر لوگ فاتحہ دینا اور فاتحہ دلانا کہتے ہیں زندوں کے ایصالِ ثواب سے مُردوں کو فائدہ پہنچتا ہے فقہ اور عقائد کی کتابوں مثلاً ہدایہ و شرح عقائد نسفیہ میں اس کا بیان موجود ہے۔ اس کو بدعت اور ناجائز کہنا جہالت اور ہٹ دھرمی ہے۔ حدیث سے بھی اس کا جائز ہونا ثابت ہے۔ چنانچہ حضرت سعد بن عُبادہ صحابی رضی اللہ تعالٰی عنہ کی والدہ کا جب انتقال ہو گیا تو انہوں نے عرض کیا کہ یارسول اللہ ! میری ماں کا انتقال ہو گیا ان کے لئے کونسا صدقہ افضل ہے ! حضور اقدس نے فرمایا پانی (بہترین صدقہ ہے۔ تو حضور کے فرمان کے مطابق) حضرت سعد رضی اللہ تعالٰی عنہ نے کنواں کھدوا دیا۔ (اور اُسے اپنی ماں کی طرف منسوب کرتے ہوئے) کہا کہ یہ کنواں سعد کی ماں کے لئے ہے۔ (یعنی اس کا ثواب ان کی رُوح کو ملے) (مشکوٰۃ ج1 ص169)

    اسی طرح ایک دوسری حدیث میں ہے کہ ایک شخص نے عرض کیا۔ یارسول اللہ ! میری ماں کا اچانک انتقال ہو گیا اور وہ کسی بات کی وصّیت نہ کرسکی۔ میرا گُمان ہے کہ وہ انتقال کے وقت کچھ بول سکتی تو وہ صدقہ ضرور دیتی۔ تو اگر میں اس کی طرف سے صدقہ کردوں تو کیا اس کی رُوح کو ثواب پہنچے گا ! تو آپ نے ارشاد فرمایا کہ ہاں پہنچے گا۔ (مسلم جلد اول ص 324)

    علانمہ نواوی رحمۃ اللہ تعالٰی علیہ نے اس حدیث کی شرح میں ارشاد فرمایا کہ
    “اس حدیث سے ثابت ہوا کہ اگر میّت کی طرف سے صدقہ کیا جائے تو میت کو اس کا فائدہ اور ثواب پہنچتا ہے۔ اسی پر عُلماء کا اتفاق ہے۔“ (نواوی شرح مسلم ج1 ص324)

    چنانچہ اسی ضمن میں رجب کے مہینے میں چاول یا گھیر پکا کر کونڈوں میں رکھتے ہیں اور حضرت جلال الدین بخاری رحمۃ اللہ تعالٰی علیہ کی فاتحہ دلاتے ہیں۔ اسی طرح ماہِ رجب میں حضرت امام جعفر صادق رحمۃ اللہ تعالٰی علیہ کو ایصالِ ثواب کرنے کیلئے پُوریوں کے کونڈے بھرے جاتے ہیں۔ یہ سب جائز اور ثواب کے کام ہیں مگر کونڈوں کی فاتحہ میں جاہلوں کا یہ فعل مذموم اور نری جہالت ہے کہ جہاں کونڈوں کی فاتحہ ہوتی ہے وہیں کھلاتے ہیں۔ وہاں سے ہٹنے نہیں دیتے۔ یہ پابندی غلط اور بیجا ہے۔ مگر یہ جاہلوں کا طریقہ عمل ہے پڑھے لکھے لوگوں میں یہ پابندی نہیں۔ اسی طرح کونڈوں کی فاتحہ کے وقت ایک کتاب “داستان عجیب“ لوگ پڑھتے ہیں۔ اس میں جو کچھ لکھا ہے اُس کا کوئی ثبوت نہیں۔ لٰہذا اس کو نہیں پڑھنا چاہئیے مگر فاتحہ دلانا چاہئیے کہ یہ جائز اور ثواب کا کام ہے۔
    اسی طرح حضرت غوث اعظم رحمۃ اللہ تعالٰی علیہ و حضرت خواجہ معین الدین چشتی رحمۃ اللہ تعالٰی علیہ و حضرت خواجہ بہاءالدین نقشبند رحمۃ اللہ تعالٰی علیہ و حضرت خواجہ شہاب الدین سُہروردی رحمۃ اللہ تعالٰی علیہ وغیرہ تمام بزرگان دین کی فاتحہ دلانا جائز اور ثواب کا کام ہے۔ جو لوگ ان بزرگوں کی فاتحہ سے منع کرتے ہیں وہ در حقیقت ان بزرگوں کے دشمن ہیں۔ لٰہذا ان کی باتوں پر کان نہیں دھرنا چاہئیے۔ نہ ان لوگوں سے میل جول رکھنا چاہئیے۔ بلکہ نہایت مضبوطی کے ساتھ اپنے مذہب اہل سنّت و جماعت پر قائم رہنا چاہئیے کہ یہی مذہب حق ہے اور اس کے سوا جتنے فرقے ہیں وہ سب صراطِ مستقیم سے بہکے اور بھٹکے ہوئے ہیں۔ خدا وند کریم سب کو اہل سنّت و جماعت کے مذہب پر قائم رکھے۔ اور اسی مذہب پر خاتمہ بالخیر فرمائے۔
    آمین یارب العالمین بحرمۃ النبی الامین وآلہ واصحابہ اجمعیں۔

    مقام عبدیت اور معراج مصطفیٰ


    معجزۂ معراج نسل انسانی کی تاریخ کا وہ سنگ میل ہے جسے قصر ایمان کا بنیادی پتھر بنائے بغیر تاریخ بندگی مکمل نہیں ہوتی اور روح کی تشنگی کا مداوا نہیں ہوتا۔ معراج النبی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم تاریخ انسانی کا ایک ایسا حیرت انگیز، انوکھا اور نادر الوقوع واقعہ ہے جس کی تفصیلات پر عقلِ ناقص آج بھی حیران و ششدر ہے۔

    اسے کچھ سجھائی نہیں دیتا کہ سفر معراج کیونکر طے ہوا؟ عقل حیرت کی تصویر بن جاتی ہے، مادی فلسفہ کی خوگر، اربعہ عناصر کی بے دام باندی عقلِ انسانی یہ سمجھنے سے قاصر ہے کہ انسان کامل حدود سماوی کو عبور کرکے آسمان کی بلندیاں طے کرتا ہوا لامکاں کی وسعتوں تک کیسے پروز کرسکتا ہے اور وہ کچھ دیکھ لیتا ہے جسے دیکھنے کی عام انسانی نظر میں تاب نہیں۔

    اس لئے حدود و قیود کے پابند لوگ اس بے مثال سفر معراج کے عروج و ارتقاء پر انگشت بدنداں ہیں اور اسے من و عن اور مستند انداز سے مذکورہ تفصیلات کے ساتھ بھی ماننے کے لئے تیار نہیں ہوتے اور ایسے ایسے شبہات وارد کرتے ہیں اور تشکیک کا ایسا غبار اڑاتے ہیں کہ دلائل سے غیر مسلح ذہن اور عام آدمی ان سے متاثر ہوئے بغیر نہیں رہ سکتا اور دیوار ایمان متزلزل سی ہونے لگتی ہے۔

    نبی آخرالزماں صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے معجزات میں معجزہ معراج خصوصی اہمیت کا حامل ہے۔ تاریخ انبیاء کی ورق گردانی کی جائے تو ہمیں معلوم ہوتا ہے کہ اپنے برگزیدہ رسولوں اور نبیوں کو اللہ رب العزت نے اپنے خصوصی معجزات سے نوازا۔ ہر نبی کو اپنے عہد، اپنے زمانے اور اپنے علاقے کے حوالے سے معجزات سے نوازا تاکہ ان کی حقانیت ہر فرد بشر پر آشکار ہو اور اسے ایمان کی دولت سے سرفراز کیا جائے۔

    چنانچہ ہم دیکھتے ہیں کہ حضرت موسیٰ علیہ السلام کی امت چونکہ جادو میں کمال رکھتی تھی، ہزاروں جادو گر دربار شاہی سے وابستہ ہوتے، اس لئے خالق کائنات نے بھی اپنے نبی کو جادو کے ان کمالات کا توڑ کرنے کے لئے معجزات عطا کئے۔ اسی طرح حضرت عیسیٰ علیہ السلام کے دور میں طب کا بڑا چرچا تھا۔ چنانچہ حضرت عیسیٰ علیہ السلام مردوں کو زندہ کردینے اور کوڑھیوں کو تندرست کر دینے کی قدرت سے فیض یاب تھے۔ پس ہر نبی اپنے وقت کے ہر کمال سے آگے ہوتا ہے۔ امت جس کمال پر فائز ہوتی ہے نبی اس کمال پر بھی حاوی ہوتا ہے۔

    اب نبی آخرالزماں صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو تشریف لانا تھا۔ باب نبوت و رسالت حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے ساتھ بند ہو رہا تھا۔ ختم نبوت کا تاج سر اقدس پر سجایا گیا۔ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم خاتم المرسلین قرار پائے چنانچہ آقائے دو جہاں صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو ایسے معجزات سے نوازا گیا جن کا مقابلہ تمام زمانوں کی قومیں مل کر بھی نہ کرسکتی تھیں۔

    اللہ رب العزت کو معلوم تھا کہ آئندہ آنے والی اقوام چاند پر قدم رکھیں گی اور ستاروں پر کمندیں ڈالیں گی لہذا اللہ تعالیٰ نے اپنے محبوب نبی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو مکان و لامکاں کی وسعتوں میں سے نکال کر اپنے قرب کی حقیقت عطا فرمائی جس کا گمان بھی عقل انسانی میں نہیں آسکتا تھا۔ حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے باقی تمام معجزات اور دیگر انبیاء و رسل کے تمام معجزات ایک طرف اور حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کا معجزہ معراج ایک طرف، تمام معجزات مل کر بھی معجزہ معراج کی ہمہ گیریت اور عالمگیریت کو نہیں پہنچ سکتے۔

    یہ حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کا دائمی معجزہ ہے جس کی عظمت میں وقت کا سفر طے ہونے کے ساتھ ساتھ اضافہ ہوتا جائے گا اور نئے نئے کائناتی انکشافات سامنے آ کر معجزہ معراج کی حقانیت کی گواہی دیتے رہیں گے۔ ارتقاء کے سفر میں اٹھنے والا ہر قدم سفر معراج میں نقوش کف پا کی تلاش میں سرگرداں ہے۔ آقائے دو جہاں صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا کہ میں مکہ سے اٹھا اور براق پر سوار ہوکر بیت المقدس پہنچا، وہاں سے آسمانوں اور پھر وہاں سے عرش معلی تک گیا حتی کہ مکان و لامکاں کی وسعتیں طے کرتا ہوا مقام قاب و قوسین پر پہنچا اور پھر حسن مطلق کا بے نقاب جلوہ کیا۔

    پیکر مصطفوی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم جامع صفات و کمالات
    حضور اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی تینوں شانوں بشریت، نورانیت اور حقیقت کو الگ الگ معراج نصیب ہوئی۔ اس پر ذہن میں ایک سوال آ سکتا ہے کہ کیا حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی ایک شان کو دوسری سے ممیز کیسے کیا جا سکتا ہے یعنی جب بشریت محمدی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم معراج سے مستفیض ہو رہی تھی تو دوسری شانیں کہاں تھیں اور اسی طرح جب آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی نورانیت و حقیقت کو معراج کرائی جا رہی تھی تو بشریت کہاں تھی؟

    اس سوال کے جواب میں روز مرہ زندگی میں انسان کے فطری احوال کا حوالہ دینا بے محل نہ ہو گا۔

    مثال :۔ جب کوئی آدمی بات کر رہا ہوتا ہے تو اس سے تکلم بالفعل کی حالت ظاہر ہو رہی ہوتی ہے حالانکہ اس میں تکلم کے ساتھ ساتھ خموشی اور سکوت کی حالت بھی بالقوۃ موجود ہوتی ہے۔

    مثال : جب ایک باپ غصے کی حالت میں اپنے بچے کو اس کی خطا پر سزا دے رہا ہوتا ہے، اسے زد و کوب کرر ہا ہوتا ہے تو یہ نہیں کہا جا سکتا کہ اس میں پیار و محبت اور شفقت کا مادہ موجود نہیں ہے بلکہ اس وقت غصہ کی حالت غالب اور پیار و محبت کی صفت مغلوب ہوتی ہے۔

    روز مرہ کے ان دو واقعات کو مثال کے طور پر پیش کر کے یہ کہا جا سکتا ہے کہ حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی شان بشریت کی معراج کے وقت آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے بشری کمالات غالب تھے جبکہ آپ کی نورانیت اور حقیقت کی شانیں ابھی مغلوب تھیں۔ جب آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی نورانیت کو معراج نصیب ہوئی تو آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے روحانی اوصاف و کمالات غالب اور بشریت و حقیقت کی شانیں مغلوب تھیں۔ اسی طرح جب آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی حقیقت و مظہریت کو معراج سے سرفراز کیا گیا تو آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی شان حقیقت و محمدیت کا غلبہ تھا اور باقی دو شانیں مغلوب تھیں جبکہ تینوں شانیں اپنی اپنی جگہ موجود تھیں، کبھی ایک کا غلبہ ہو جاتا اور کبھی دوسری کا۔

    حاصل کلام یہ کہ معراج کے توسط سے حضور اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی ذات و صفات کے ہر پہلو اور ہرشان کی تکمیل بدرجہ اتم کر دی گئی اور آپ اوصاف وکمالات ایزدی کا مظہر اتم بن کر منصہ شہود پر جلوہ گر ہوئے لیکن ان کا کماحقہ ادراک عقل انسانی کی گرفت سے باہر ہے اور آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم اس مقام پر جلوہ گر ہوئے جس مقام کی عظمت کا تصور بھی تمام نورانی اور خاکی مخلوقات کے لئے ممکن نہیں۔

    اللہ رب العزت نے ارشاد فرمایا :

    ثُمَّ دَنَا فَتَدَلَّىO

    (النجم، 53 : 8)

    پھر یہ قریب ہوا پھر وہ اور قریب ہوا۔

    دنی اور تدلی میں فرق
    1۔ دنٰی کا معنی ’’قرب‘‘ ہے اور تدلّٰی کا معنی بھی ’’قریب ہونا‘‘ ہے لیکن دونوں میں فرق یہ ہے کہ ’’دنی‘‘ میں تین حروف (د، ن، ی) ہیں جبکہ تدلی میں حروف (ت، د، ل، ی) کی تعداد چار ہے۔ عربی کا قاعدہ ہے کہ کثرت حروف کثرت معنی پر دلالت کرتے ہیں اور قلت حروف قلت معنی پر دلالت کرتے ہیں۔ ’’دنی‘‘ فعل مصطفیٰ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم ہے اور ’’تدلی‘‘ فعل خدا۔ ’’دنی‘‘ کے کم حروف سے پتہ چلتا ہے کہ محبوب چونکہ مخلوق میں سے تھا اور مخلوق محدود ہے اس لئے اس کا قرب بھی محدود ہے اور رب چونکہ خالق اور لامحدود ہے اس لئے اس کا قرب بھی لامحدود تھا۔ اللہ اللہ ہے اور بندہ بندہ۔ اللہ خالق ہے اور بندہ اس کی مخلوق۔

    حضور اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم ایک مقام پر پہنچ کر رک گئے لیکن اللہ تعالیٰ اتنا قریب ہوا کہ کوئی حد باقی نہ رہی۔ ’’دنی‘‘ کا جواب باری تعالیٰ نے ’’تدلی‘‘ کی صورت میں دیا اور ایسا کیوں نہ ہو۔ حدیث قدسی میں اللہ کا اپنا فیصلہ ہے کہ

    وان تقرب الی شبرا تقربت اليه ذراعا و ان تقرب الی ذراعا تقربت اليه باعا وان اتانی يمشی، اتيته هرولة.

    (صحيح بخاری، کتاب التوحيد، 6 / 2694، الرقم : 6970)

    ’’اگر وہ ایک بالشت میرے نزدیک آئے تو میں ایک بازو کے برابر اس کے نزدیک ہوجاتا ہوں۔ اگر وہ ایک بازو کے برابر میرے نزدیک آئے تو میں دو بازوؤں کے برابر اس کے نزدیک ہوجاتا ہوں اور اگر وہ میری طرف چل کر آئے تو میں اس کی طرف دوڑ کر آتا ہوں‘‘۔

    جس طرح یہاں ’’شبراً‘‘ کا جواب ’’ذراعاً‘‘ سے دیا۔ اسی طرح زیر بحث آیہ کریمہ میں ’’دنی‘‘ کا جواب ’’تدلی‘‘ سے دیا۔

    2۔ سورہ نجم میں ثم دنی فتدلی میں قرب کا ذکر دو دفعہ آیا ہے حالانکہ ایک دفعہ کہنا بھی کافی ہو سکتا تھا۔

    شیخ بقلی شیرازی رحمۃ اللہ علیہ اور بہت سے دیگر عرفاء کاملین نے بحر عرفان میں غواصی کر کے بہت سارے گہر ہائے نایاب دریافت کئے ہیں۔ فرماتے ہیں کہ قرب کا ذکر یہاں دو مرتبہ اس لئے ہوا کہ معراج میں حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو دو قرب نصیب ہوئے۔

    قرب صفات
    قرب ذات
    یعنی اللہ رب العزت کی صفات اور ذات دونوں نے حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو اپنے حصار التفات میں لے لیا۔

    1۔ قرب صفات
    اس قرب میں ثم دنی کی صورت میں ذات باری تعالیٰ نے اپنی صفات تجلیات سے حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو اپنی صفات سے اتنا قریب کر لیا کہ صفات محمدیہ پر صفات الہٰیہ کا رنگ چڑھ گیا یہاں تک کہ آپ صفات الہٰیہ کے مظہر اتم بن گئے۔ یہ صفات الہٰیہ کے حوالے سے حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی معراج تھی۔

    2۔ قرب ذات
    جب حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو صفاتی قرب سے مکمل طور پر بہرہ ور کر دیا گیا تو پھر تجلیات ذات آپ پر جلوہ فگن ہوئیں جس سے آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو وہ ملکہ حاصل ہو گیا کہ آپ چشم سر اور چشم دل دونوں سے خدا کا دیدار کر سکیں۔ یہ قرب ’’تدلی‘‘ کی صورت میں عطا ہوا۔ حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم، اللہ رب العزت کی ذات کے سائبان کرم میں تھے۔ یہ مقام حاصل کرنے والے حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم پہلے اور آخری بندے اور رسول ہیں۔

    جب حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم صفات باری تعالیٰ کے مظہر اتم بن گئے تو آواز آئی کہ اے حبیب! صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم آگے بڑھیئے۔ آپ آگے بڑھتے گئے یہاں تک کہ حبیب لبیب صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم اور محب کے درمیان فاصلہ کم ہوتے ہوتے دو کمان یا اس سے بھی کم رہ گیا۔ مقام قاب قوسین پر قرب و وصال کی وہ منزل آ گئی جو معراج کا نقطہ کمال (Climax) تھا۔ اس سے زیادہ قرب ممکن ہی نہ تھا۔ بایں ہمہ عبد کامل اور معبود حقیقی کے مابین وہ فرق و امتیاز قائم و دائم رہا جو نکتہ توحید کی اساس ہے۔

    قاب قوسین سے کیا مراد ہے؟
    سفر معراج میں قاب قوسین کا ذکر جمیل اس تواتر سے ہوا ہے کہ ذہنوں میں یہ سوال ابھرتا ہے کہ قاب قوسین سے کیا مراد ہے؟ اس کا قرآنی مفہوم کیا ہے؟

    قرآن حکیم میں اللہ رب العزت نے اپنے حبیب صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے انتہائی قرب و وصال کو قاب قوسین کی بلیغ و جمیل عام فہم تمثیل سے بیان فرمایا ہے تاکہ عرب اپنی روز مرہ زبان اور محاورے کے مطابق اس بات کا مفہوم پوری طرح سمجھ سکیں۔ قوسین سے مراد کمانیں یا ابرو یا بازو ہیں اور ’’قاب‘‘ فاصلے کی اس مقدار کو کہتے ہیں جو دو کمانوں کے درمیان ہوتی ہے۔

    جب دو بچھڑے ہوئے دوست مدت بعد ملتے ہیں تو ان کے ملنے کا انداز یہ ہوتا ہے کہ ایک ہاتھ کمان کی صورت میں اوپر اٹھتا ہے اور دوسرا دوست اسی طرح قریب آ کر اپنا ہاتھ اوپر اٹھاتا ہے تو نصف دائرے کی شکل میں دوسری کمان بن جاتی ہے۔ جب دونوں کے مابین معانقے کا عمل تکمیل کو پہنچتا ہے تو ان میں دو کمانوں کا یا اس سے بھی کم فاصلہ رہ جاتا ہے۔ کوئی شک نہیں کہ خدا کی ذات معانقے اور ان لوازمات سے پاک ہے لیکن اپنے حبیب صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے قرب کی انتہائی صورت کو بیان کرنے کے لئے اس تمثیل کے ذریعے بات ذہن نشین کرائی گئی ہے ورنہ باری تعالیٰ تو ہر مثل سے پاک ہے۔ قرآن حکیم میں ارشاد باری تعالیٰ ہے۔

    لَيْسَ كَمِثْلِهِ شَيْءٌ.

    (شوریٰ، 42 : 11)

    ’’اس کی مثل کوئی شئے نہیں‘‘۔

    ہر شئے سے پاک ہونے کے باوجود پھر فرمایا۔

    مَثَلُ نُورِهِ كَمِشْكَاةٍ فِيهَا مِصْبَاحٌ.

    (النور، 24 : 35)

    ’’اس کے نور کی مثال (جو نور محمدی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی شکل میں دنیا میں روشن ہوا) اس طاق (نما سینہ اقدس) جیسی ہے جس میں چراغ (نبوت روشن) ہے‘‘۔

    ان آیات سے معلوم ہوا کہ باری تعالیٰ ہمیں سمجھانے کے لئے مثال ارشاد فرماتا ہے۔ خود اسے مثال کی حاجت و ضرورت نہیں جیسا کہ قرآن مجید میں ارشاد فرمایا کہ

    إِنَّ اللَّهَ لاَ يَسْتَحْيِي أَن يَّضْرِبَ مَثَلاً مَّا بَعُوضَةً فَمَا فَوْقَهَا.

    (البقره، 2 : 26)

    ’’بے شک اللہ تعالیٰ اس بات سے نہیں شرماتا کہ (سمجھانے کے لئے) کوئی بھی مثال بیان فرمائے (خواہ) مچھر کی یا (ایسی چیز کی جو حقارت میں) اس سے بڑھ کر ہو‘‘۔

    قاب قوسین کا تہذیبی، ثقافتی اور مجلسی پس منظر
    اسلام دین فطرت ہے۔ ہر مرحلہ پر انسانی نفسیات کو مدنظر رکھتا ہے۔ قرآن کا اسلوب ہدایت بھی یہ ہے کہ جب وہ کوئی بات اپنے بندوں کو ذہن نشین کرانا چاہتا ہے تو ان کے سماجی پس منظر کو نظر انداز نہیں کرتا اور وہ ان کے ماحول کے مطابق انہیں مخاطب کر کے یا کسی تمثیل یا محاورے کے ذریعہ اپنی ہدایت کی ترسیل کے عمل کو مکمل کرتا ہے۔ چونکہ اہل عرب قرآن کے اولین مخاطبین ہیں اس لئے عرب رسم و رواج کا ثقافتی پس منظر قرآن میں اپنی تمام تر جزئیات کے ساتھ دکھائی دیتا ہے۔

    اہل عرب کے قدیم دستور و رواج کا مطالعہ کرنے سے قاب قوسین کی معنویت کی ایک اور پرت کھلتی نظر آتی ہے۔ جب دو متحارب عرب قبیلے دشمنی کی راہ ترک کر کے ایک دوسرے سے شیر و شکر ہونا چاہتے تو ان کے سردار معاہدہ دوستی کو عملی جامہ پہنانے کے لئے علامتی طور پر دو کمانوں کو ایک دوسرے کے ساتھ ملا کر تیر چلاتے جس سے یہ ظاہر کرنا مقصود ہوتا کہ آج کے بعد دونوں حلیف قبیلوں کا دوست اور دشمن ایک ہو گا۔ ایک کا دوست دوسرے کا دوست اور ایک کا دشمن دوسرے کا دشمن متصور ہو گا اور صلح و جنگ کے معاملوں میں دونوں کا رویہ ایک دوسرے سے مکمل طور پر ہم آہنگ ہو گا۔

    (معارج النبوۃ، 3 : 146)، (روح المعانی، 67 : 48)

    عبد و معبود کا فرق قائم رہا
    تاج عظمت حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے سر اقدس پر رکھا گیا۔ معراج کی شب فضیلتیں قدم قدم پر آپ کے ہمرکاب رہیں۔ آقائے دوجہاں صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم جب مقام قاب قوسین پر پہنچے تو اللہ تعالیٰ نے مزید قریب کر کے سریر آرائے ’’او ادنیٰ‘‘ پر متمکن ہونے کا شرف بخشا۔ قاب قوسین کے بعد ’’او ادنیٰ‘‘ کہہ کر قرآن خاموش ہو گیا کیونکہ اگر قاب قوسین تک بات ختم ہو جاتی تو قرب متعین ہو جاتا لیکن خدا تعالیٰ تو سب فاصلہ مٹانا چاہتا ہے اسی لئے فرمایا ’’او ادنیٰ‘‘ دو کمانوں کی مثال لوگوں کو سمجھانے کے لئے دی حالانکہ محبوب صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم اور محب کے درمیان فاصلہ تو اس سے بھی کم تر ہے۔ ’’ادنیٰ‘‘ کے بعد حتی یا الٰی نہیں لگایا اس لئے کہ یہ حد بھی مقرر نہ ہو جائے کہ کہاں تک فاصلہ کم ہوا۔ او ادنٰی کا لفظ ہمیں یہ بتا رہا ہے کہ محب اور محبوب کے درمیان فقط ایک فرق عبد و معبود کا قائم رہا، باقی سب فاصلے اور امتیازات ختم ہو گئے۔

    احدیت اور احمدیت کی قوسین
    سفر معراج میں اللہ رب العزت کے جلال و جمال کی رعنائیاں لامکاں کی وسعتوں میں ہر طرف بکھری ہوئی دکھائی دیتی ہیں۔ رب کائنات کی الوہیت کے پرچم ہر سمت لہرا رہے ہیں۔ فَكَانَ قَابَ قَوْسَيْنِ أَوْ أَدْنَى سے اگلی آیت فَأَوْحَى إِلَى عَبْدِهِ مَا أَوْحَى ہمیں الوہیت کا درس دے رہی ہے۔ ارشاد ربانی ہے ’’پس اس (خدا) نے وحی کی اپنے بندے کی طرف جو وحی کی‘‘ یعنی باوجود اس انتہائی قرب کے وہ عبد اور میں معبود۔ ۔ ۔ وہ مخلوق اور میں خالق۔ ۔ ۔ وہ مملوک اور میں مالک رہا۔ ۔ ۔ میں نے ہی اسے عالم انسانیت کی طرف مبعوث کیا تاکہ وہ انہیں ضلالت و گمراہی کے اندھیروں سے نکال کر رشد و ہدایت کے اجالوں کی طرف لے جائے لیکن یہ امر ہر قسم کے شک و شبہ سے بالاتر ہے کہ اب الوہیت و رسالت ایک دوسرے کے اتنا قریب ہیں کہ کفر و ایمان کے معاملوں میں ایک پر ایمان دوسرے پر ایمان اور ایک کا انکار دوسرے کے انکار کے متراف ہے۔ اب تم میرے رسول صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے حلقہ بگوش ہو کر میری اطاعت کا اقرار کر سکو گے۔

    اگر تم نے اس کی غلامی سے انحراف کی راہ اختیار کی تو تم فی الواقعہ اپنے اس فعل سے میری توحید سے منحرف ہو جاؤ گے۔ توحید و رسالت پر ایمان میں کسی قسم کا فرق روا رکھا ہی نہیں جا سکتا۔ احدیت و احمدیت کی قوسین باہم ایک دوسرے سے اتنی متصل ہو گئیں کہ ان سے میرے قرب و وصال اور عشق و محبت ہی کا پتہ چل رہا ہے۔ تقرب الی اللہ کا دعویٰ بغیر عشق رسول صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے بے بنیاد ہے۔

    مقام قاب قوسین پر جب حجابات اٹھا دیئے گئے اور مَا زَاغَ الْبَصَرُ وَمَا طَغَى کے مصداق شان محبوبیت یہ تھی کہ نگاہ محبوب صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نہ ہٹی اور نہ ہی حد سے بڑھی بلکہ وصال و دید کا وہ عالم تھا کہ چشم نظارہ ایک لحظہ بھی جمال جہاں آراء سے نہ ہٹنے پائی اور احدیت و احمدیت کی قوسین اس طرح مل گئیں کہ باہمی قرب کی کیفیت ثم دنی فتدلی کی آئینہ دار بن گئی اور آخر میں قاب قوسین کے مقام پر دونوں ایک دوسرے کے اتنے قریب ہو گئے کہ درمیانی فاصلہ برائے نام رہ گیا۔

    یہاں یہ نکتہ قابل توجہ ہے کہ قربت کا ذکر کرتے ہوئے درمیان میں فاصلہ رہنے کا ذکر لابدی اور ضروری سمجھا گیا اس لئے کہ خالق و مخلوق میں چاہے کتنا ہی قرب کیوں نہ ہو، ان کی ہستی جدا جدا ہے اور دونوں کا ایک وجود (Entity) نہیں مانا جا سکتا کہ محبوبیت کے اعلیٰ اور ارفع مقام پر پہنچ کر بھی عبدیت اور معبودیت کا فرق برقرار رہتا ہے۔

    یہاں ایک بات خاص طور پر ذہن نشین کر لینی چاہئے کہ جو شخص عبد و معبود کے فرق کو مٹاتا ہے، کافر ہے۔ عقیدے میں، عقل میں یا ایمان میں، عشق میں یا محبت میں الغرض کسی درجے میں بھی یا کسی سطح پر بھی بندہ رب ہو سکتا ہے نہ رب بندہ ہو سکتا ہے جو عبد کو معبود بنائے یا معبود کو عبد، وہ کافر ہے اور جس طرح عبد اور معبود کا فرق مٹانا کفر ہے اسی طرح فرق عبد و معبود کے سوا کوئی اور فرق ڈالنا بھی کفر ہے۔ سو اعتقاد یہی رکھنا چاہئے کہ مقام ’’او ادنیٰ ‘‘ پر پہنچ کر بھی خدا خدا ہے اور نبی نبی ہے۔

    مقام عبدیت
    اللہ رب العزت کائنات ارض و سماوات کا خالق ہے۔ ہر چیز اس کے دائرہ قدرت میں ہے۔ اس نے معراج کی شب اپنے بندے اور رسول صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم پر عنایات کی بارش کر دی اور اسے وہ عظمت عطا کی جو آج تک نہ کسی رسول کا مقدر بن سکی اور نہ قیامت تک بن سکے گی۔

    اس مقام پر پہنچ کر جہاں تمام دوریاں ختم ہو گئی تھیں قرآن زبان حال سے یوں گویا ہوا۔

    فَأَوْحَى إِلَى عَبْدِهِ مَا أَوْحَىO

    (النجم، 53 : 10)

    پھر (اللہ رب العزت نے بلاواسطہ) اپنے بندہ کو جو وحی فرمانا تھا فرمائی (جو دینا تھا دیا جو بتانا تھا بتایا)

    معلوم ہوا کہ مخلوق میں عبدیت سے بہتر کوئی مقام نہیں مگر افسوس کہ آج لوگ اسی پر جھگڑتے پھرتے ہیں۔ اے کاش! انہیں حقیقت عبدیت سمجھ آ جاتی۔

    متاع بے بہا ہے درد و سوز آرزو مندی
    مقام بندگی دے کر نہ لوں شان خداوندی

    عقیدہ توحید اور واقعہ معراج
    عقیدہ توحید مومن کے ایمان کا مرکز و محور ہے۔ شرک کا سایہ بھی انسان کو دائرہ ایمان سے خارج کر دیتا ہے۔ سفر معراج حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کا ایک معجزہ ہے اور معجزہ رب کائنات کی قدرت مطلقہ کا مظہر ہوتا ہے۔ سفر معراج میں بھی توحید ربانی کے پرچم ہر طرف دکھائی دیتے ہیں۔

    آدم سے حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم تک تمام انبیاء جس آسمانی ہدایت کے ساتھ مبعوث ہوتے رہے اس کا مرکزی نقطہ بھی توحید ہی تھا کہ وہی ذات بندگی کے لائق ہے اور اس کے سوا کوئی معبود نہیں۔ وہ وحدہ لاشریک ہے، کوئی اس کا ہمسر ہے نہ ثانی، نہ اس کی کوئی انتہا ہے اور نہ ابتداء ہے۔ وہ ازل سے ہے اور ابد کے بعد بھی وہی ہے۔ جب کچھ نہ تھا تو وہ تھا جب کچھ نہ ہو گا تو پھر بھی اس کی ذات یکتا و تنہا ہو گی۔ اس ذات کو نہ اونگھ ہے نہ زوال، وہ ہر حاجت سے پاک اور مبرا ہے اور وہ ہر کسی کا حاجت روا ہے۔

    امم سابقہ نے اکثر و بیشتر مسئلہ توحید کے بارے میں ٹھوکر کھائی ہے۔ ان کے اکثر افراد (الا ماشاء اللہ) نے اپنے نبی کو اس کے کمالات و روحانی تصرفات دیکھ کر الوہیت کے درجہ پر پہنچا دیا۔ ان میں سے کسی نے نبی کو خدا کا بیٹا کہا اور کوئی تمثلیث کا قائل ہو گیا۔ گویا نبی کو مقام نبوت سے ہٹا کر خدا کا شریک ٹھہرا لیا تاہم امت مصطفوی کو یہ شرف و افتخار حاصل ہے کہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے عطا کردہ عقیدہ توحید کی تعلیم ان کے قلوب و اذہان میں اس درجہ راسخ ہو گئی کہ اس پر شرک کی گرد پڑنے کا بھی کوئی احتمال باقی نہ رہا۔

    اپنے حبیب صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو قرب کا انتہائی مقام تفویض کر کے ارشاد ہوتا ہے اوحی الی عبدہ ما اوحی ’’ہم نے اپنے بندے کی طرف وحی کی‘‘ اللہ اللہ! بندگی کا کیا مقام ہے کہ خدائی کا مختارِ کُل بنا دیا جائے پھر بھی حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم بندہ ہی رہے۔ عقیدہ توحید میں کسی قسم کے خلجان اور التباس کی کوئی گنجائش نہیں کہ خالصیت اور عبدیت کے فاصلے کا پاٹنا ناممکنات میں سے ہے۔ اس فاصلے کو برقرار رکھنا بہرحال ناگزیر ہے۔