Sunday, August 21, 2011


واہ کیا جود و کرم ہے شہ بطحی تیرا
کوئی دنیائے عطا میں نہیں ہمتا تیرا
ہو جو حاتم کو میسر یہ نظارا تیرا
کہہ اٹھے دیکھ کے بخشش میں یہ رتبہ تیرا
واہ کیا جود و کرم ہے شہ بطحٰی تیرا
نہیں سنتا ہی نہیں مانگنے والا تیرا

کچھ بشر ہونے کے ناتے تجھے خود سا جانیں
اور کچھ محض پیامی ہی خدا کا جانیں
اِن کی اوقات ہی کیا ہے کہ یہ اتنا جانیں
فرش والے تری عظمت کا علو کیا جانیں
خسروا عرش پہ اڑتا ہے پھریرا تیرا

جو تصور میں ترا پیکر زیبا دیکھیں
روئے والشمس تکیں ، مطلع سیما دیکھیں
کیوں بھلا اب وہ کسی اور کا چہرا دیکھیں
تیرے قدموں میں جو ہیں غیر کا منہ کیا دیکھیں
کون نظروں پہ چڑھے دیکھ کے تلوا تیرا

مجھ سے ناچیز پہ ہے تیری عنایت کتنی
تو نے ہر گام پہ کی میری حمایت کتنی
کیا بتاوں تری رحمت میں ہے وسعت کتنی
ایک میں کیا مرے عصیاں کی حقیقت کتنی
مجھ سے سو لاکھ کو کافی ہے اشارہ تیرا

کئی پشتوں سے غلامی کا یہ رشتہ ہے بحال
یہیں طفلی و جوانی کے بِتائے مہہ و سال
اب بوڑھاپے میں خدارا ہمیں یوں در سے نہ ٹال
تیرے ٹکڑوں پہ پلے غیر کی ٹھوکر پہ نہ ڈال
جھڑکیاں کھائیں کہاں چھوڑ کے صدقہ تیرا

غمِ دوراں سے گھبرائیے ، کس سے کہیے
اپنی الجھن کسے بتلائیے ، کس سے کہیے
چیر کر دل کسے دکھلائیے ، کس سے کہیے
کس کا منہ تکیے ، کہاں جائیے ، کس سے کہیے
تیرے ہی قدموں پہ مٹ جائے یہ پالا تیرا

نذرِ عشاقِ نبی ہے یہ مرا حرفِ غریب
منبرِ وعظ پر لڑتے رہیں آپس میں خطیب
یہ عقیدہ رہے اللہ کرے مجھ کو نصیب
میں تو مالک ہی کہوں گا کہ ہو مالک کے حبیب
یعنی محبوب و محب میں نہیں میرا تیرا

خوگرِ قربت و دیدار پہ کیسی گزرے
کیا خبر اس کے دلِ زار پہ کیسی گزرے
ہجر میں اس ترے بیمار پہ کیسی گزرے
دور کیا جانیے بدکار پہ کیسی گزرے
تیرے ہی در پہ مرے بیکس و تنہا تیرا

تجھ سے ہر چند وہ ہیں قدر و فضائل میں رفیع
کر نصیر آج مگر فکرِ رضا کی توسیع
پاس ہے اس کے شفاعت کا وسیلہ بھی وقیع
تیری سرکار میں لاتا ہے رضا اس کو شفیع
جو مرا غوث ہے اور لاڈلا بیٹا تیرا

♥♥♥الصلواة والسلام عليک يارسول الله♥♥♥
♥♥♥الصلواة والسلام عليک ياحبيب الله♥♥♥
~~~خرم رشید~~~
لو مدینے کی تجلی سے لگائے ہوئے ہیں
دل کو ہم مطلع انوار بنائے ہوئے ہیں

اک جھلک آج دکھا گنبدِ خضری کے مکیں
کچھ بھی ہے دور سے دیدار کو آئے ہوئے ہیں

سر پہ رکھ دیجے ذرا دستِ تسلی آقا
غم کے مارے ہیں زمانے کے ستائے ہوئے ہیں

بوسہ در سے نہ روک ان کو تو اب اے دربان
خود نہیں آئے یہ مہمان بلائے ہوئے ہیں

نام آنے سے ابوبکر و عمر کا لب پر
کیوں بگڑتا ہے ، وہ پہلو میں سلائے ہوئے ہیں

حاضر و ناظر و نور و بشر و غیب کو چھوڑ
شکر کر وہ تیرے عیبوں کو چھپائے ہوئے ہیں

کٹ گیا ہے تیری تعلیم سے رشتہ اپنا
صرف رسم و رہِ دنیا ہی نبھائے ہوئے ہیں

قبر کی نیند سے اٹھنا کوئی آسان نہ تھا
ہم تو محشر میں انہیں دیکھنے آئے ہوئے ہیں

تیری نسبت کی بدولت ہی تو ہم جیسے لوگ
کفر کے دور میں ایمان بچائے ہوئے ہیں

کیوں نہ پلڑا تیرے اعمال کا بھاری ہو نصیر
اب تو میزان پہ سرکار بھی آئے ہوئے ہیں
درگزر کی خو طبیعت میں کرم پیکر میں ہے
ہو بہو سیرت محمّد (صلی اللہ علیہ وسلم) کی تیرے پیکر میں ہے

نۓ حصول ملک میں نۓ جمع مال و زر میں ہے
جو سکون زندگی مداحی حیدر میں ہے

خان شاہی کے متائم میں کہا وہ ارتداز
جو مزہ لانے جمی کا حیدری لنگر میں ہے

مرتضیٰ مولود کعبہ والد سبطین بھی
اس بھی بڑ کر سعادت یہ کے زھرا گھر میں ہے

دے کر بستر کر دیا تھا فیصلہ ہجرت کی شب
عقل کا اندھا ابھی تک ترتیب کے چکر میں ہے

دولت دنیا امیر شام رکھتا ہے تو کیا
علم و حکمت کا خزینہ قبضہ حیدر میں ہے

کج گناہوں کو بھلا خاطر میں کیا لائے نصیر
بے نیازی ان سے بڑ کر اس تیرے چاکر میں ہے

وارث علوم مہر علی پیر سید نصیر الدین نصیر گیلانی رحمتہ الله علیہ♥

نہ گل کی تمنا نہ شوق چمن ہے یہ دل حب آل نبی میں مگن ہے
حسین و حسن ہیں وہ پیکر کے جن میں بتولی نجابت رسولی چلن ہے
میرے سر کو سودائے زھرا و حیدر میرے دل میں عشق رسول ضمن ہے
تصور میں ہےمیرے سجاد و زینب نگاہوں میں روئے حسین و حسن ہے
سکینہ کی وہ پیاس وہ ضبط گریہ کہ نہرے فرات آج بھی نو حزن ہے
وہ معصوم اصغر کی معصوم ہچکی اسی غم کے سکتے میں چرخے کہن ہے
لہو میں ادھر تو نہایا ہے اصغر ادھر تیرا بابا بھی خونی کفن ہے
نہ بھولے گی زینب کو شام غریباں کہ بھائی کھو کر لٹی اک بہن ہے
وہ زینب جو کل تھی مدینے کی مالک وہ اب کربلا میں غریب الوطن ہے
کہا ماں نے اکبر کے قاتل سے رک جا شبیہ محمّد ہے نازک بدن ہے
یہ کیوں محو گریہ محفل کی محفل یہاں کیا کوئی ذکر دارو رسن ہے
دکھا دے جھلک اب تو اے ماہ زھرا کہے منتظر منتظر انجمن ہے
کھلے پھول ہیں جس میں زھرا کے ہر سو محمّد کا بھی کیا مہکتا چمن ہے
ستم سہہ کے بھی انکے تیور نہ بدلے وہی تمکنت ہے وہی بانکپن ہے
حسین ابن زھرا کا مکھڑا تو دیکھو علی کی وجاہت ہے نبی کی پبھن ہے
ثنا کیجئے کھل کے آل آبا کی کہ ذکر انکا خود آبروے سخن ہے
نہ کیوں مجھ پر اترائے جادو بیانی کہ منہ میں علی کا لہاب دھن ہے
نصیر اب میں کیوں مانگنے دور جاؤں یہ میں ہوں یہ دروازہ پنجتن ہے

چراغ گولڑہ علامہ پیر سید نصیر الدین نصیر گیلانی رحمتہ الله علیہ♥

ازل سے میرے مقدر میں ہے ولائے حسن A.S
رہے گی سایہ فگن تاابد ردائے حسن a.s

یہ حال ہے میرے دل کا بہ فیض شاہ ہدا
کبھی حسین پہ قرباں کبھی فدائے حسن A.S

وہ ذات پاک ہے ابن علی A.S و سبط نبی صلی اللہ علیہ وسلم
...میری نگاہ کا سرمہ ہے خاک پائے حسن A.S

عجب نہیں کہ مجھے خلد میں جگہ مل جائے
بہ فیض سرور کون و مکاں برائے حسن A.S

کسی بھی شے کی کمی ہے نہ آرزو نہ طلب
نصیر فضل خدا سے ہوں میں گدائے حسن A.S





نکل گئے ہیں خرد کی حدوں سے دیوانے
اب اہلِ ہوش سے کہہ دو نہ آئیں سمجھانے

بساطِ بزم الٹ کر کہاں گیا ساقی
فضا خموش ، سُبُو چپ ، اداس پیمانے

یہ کس کے غم نے دلوں کا قرار لُوٹ لیا
یہ کس کی یاد میں سر پھوڑتے ہیں دیوانے

بھری بہار کا منظر ابھی نگاہ میں تھا
مری نگاہ کو کیا ہوگیا خدا جانے

ہے کون بر لبِ ساحل ، کہ پیشوائی کو
قدم اُٹھائے بہ اندازِ موج ، دریا ، نے

تمام شہر میں اک درد آشنا نہ ملا
بسائے اِس لئے اہلِ جنوں نے ویرانے

نہ اب وہ جلوہ یوسف نہ مصر کا بازار
نہ اب وہ حسن کے تیور ، نہ اب وہ دیوانے

نہ حرفِ حق ، نہ وہ منصور کی زباں ، نہ وہ دار
نہ کربلا ، نہ وہ کٹتے سروں کے نذرانے

نہ بایزید ، نہ شبلی ، نہ اب جنید کوئی
نہ اب و سوز ، نہ آہیں ، نہ ہاوہو خانے

خیال و خواب کی صورت بکھر گیا ماضی
نہ سلسلے نہ وہ قصے نہ اب وہ افسانے

نہ قدر داں ، نہ کوئی ہم زباں ، نہ انساں دوست
فضائے شہر سے بہتر ہیں اب تو ویرانے

بدل گئے ہیں تقاضے مزاجِ وقت کے ساتھ
نہ وہ شراب ، نہ ساقی ، نہ اب وہ میخانے

تمام بند جُنوں توڑ بھی گیا ، لیکن
انا کے جال میں جکڑے ہوئے ہیں فرزانے

یہ انقلاب کہاں آسماں نے دیکھا تھا
الجھ رہے ہیں غمِ زندگی سے دیوانے

ہر ایک اپنے ہی سود و زیاں کی فکر میں ہے
کوئی تو ہو ، جو مرے دل کا درد پہچانے

ترا وجود غنیمت ہے پھر بھی اے ساقی!
کہ ہوگئے ہیں پھر آباد آج میخانے

وہی ہجوم ، وہی رونقیں ، وہی میکش
وہی نشہ ، وہی مستی ، وہی طرب خانے

جبیں کو در پہ ترے رکھ دیا یہی کہہ کر
یہ جانے اور ترا سنگِ آستاں جانے

اُٹھیں گے پی کے تری مے نواز آنکھوں سے
یہ طے کئے ہوئے بیٹھے ہیں آج دیوانے

ہے تیری ذات وہ اک شمعِ انجمن افروز
کہ جس کی لو پہ لپکتے رہیں گے پروانے

کوئی نشاط کا ساماں کوئی طرب کی سبیل
لگی ہے پھر سرِ میخانہ بدلیاں چھانے

تو بولتا ہے تو چلتی ہے نبضِ میخانہ
تو دیکھتا ہے تو کرتے ہیں رقص پروانے

یہ مستیاں نہیں جام و سُبو کے حصے میں
تیری نگاہ سے پتے ہیں تیرے دیوانے

نصیر ! اشک تو پلکوں پہ سب نے دیکھ لیے
گزر رہی ہے جو دل پر ، وہ کوئی کیا جانے

از سید نصیر الدین نصیر رحمۃ اللہ علیہ

♥♥♥الصلواة والسلام عليک يارسول الله♥♥♥
♥♥♥الصلواة والسلام عليک ياحبيب الله♥♥♥
~~~خرم رشید~~~

Saturday, July 16, 2011

Hazrat Khawja Shams-ud-Din Sialvi

Hazrat Khawja Shams-ud-Din Sialvi was born in 1799 A.D.(1214 A.H). He was born of a very religious family. He descended from Hazrat Ali,the fourth caliph of Islam.
Long before his birth,a great saint of Multan ,Ghaus Baha -ul-Haq Zakarya Multani,while travelling to Bhera,got down from horse back when he was right at the place where now the great tomb of Hazrat Khwaja Shams-ud-din Sialvi is situated and picked handful of soil and kissed it. His deciples wre astonished by this gesture.Upon there insistence, he revealed to them, that a Ghaus would be born there.
He had become the hafiz of Quran(one who remembers Quran by heart) at the age of 7 years.He went to some of the renounced institutions to get religious education. He went as far as Kabul where he was awarded Sand-e-Hadith(certification of hadith). The most important of his journeys was to Taunsa Sharif (Distt. D.G Khan), where he becme a deciple of Hazrat Khawja Suleiman Taunsvi.
He went to Mecca twice to perform pilgrimage.He was a stanch follower of Quran and Sunnah. His teachings played an important role in reviving the spirit of Islam in Muslims in the wake of Missionary propaganda by christians and oppression by Sikhs.
He established an institute for religious education. He himself used to teach there. Some of his students went to become known Islamic scholars in the subcontinent.
The most well known his deciples were,
  • Hazrat Khawja Muazam-ud-din Muazamabadi
  • Hazrat Ameer Shah Bhervi
  • Hazrat Khawja Mehr Ali Shah Goladvi
  • Hazrat Khawja Syed Ghulam Haider Shah Jalalpuri
  • Hazrat Khawja Syed Muhammad Saeed Shah Zanjani Lahorvi
  • Hazrat Khawja Syed Muhammad Hasan Shah Gilani
  • Hazrat Khawja Syed Niaz Ali Gardezi
  • Hazrat Mirza Nawab Baig Delhvi
  • Hazrat Mulla Khushnud Yusafzai(Kabul)
Hazrat Khawja Shams-ud-din Sialvi died on 24th of Safar 1300 A.H( 4th of january 1883 A.D). He was buried in Sialsharif about 48 kilometers from Sargodha on Sargodha-Jhang road.
Hazrat Khawja Qamar-ud-din Sialvi
He was born on 24th Jumadi-ul-Awwal 1324 A.H in (7th July 1906) in Sialsharif (Distt.Sargodha) He was the eldest son of Hazrat Zia-ud-din Sialvi. He had learnt Quran when he was just 9. He went to a number of institutions to get religious education.The most important of these institution were situated in Mecc and Ajmer.
After completing his education he continued the mission of his forefathers of reviving the spirit of islam He tenaciously opposed British Raj and worked hard for establishment of a muslim state fot the muslims.The british did not like his working against the Raj. They offered him the title of "His Holiness"(the biggest spiritual and religious title in British Raj) for giving up his opposition which he turned down,and burnt the letter to ashes. As a penalty for his defiance his land was confiscated,he was stopped from making speech,and was thrown into jail. But he continued his opposition.
He became the president of Sargodha Muslim League.He went to all corners of subcontinent to vote fot Muslim Leafgue in te election of 1946. He particularly walked along with Pir of Zakori in NWFPto vote for Pakistan in the referandum of 1947. After the inception of pakistan,he wrote to Quaid-e-Azam to congratulate him and emphasize the need for promulgation of islamic laws. Replying his letter Quaid-e-Azam wrote "Efforts on part of Mashaikhs in thePakistan Movement are highly commendable. Rest assured Islamic laws will be promulgated in Pakistan"
In the Indo-Pak war of 1965 he donated all the ornaments of his family to Pakistan Army. In 1970 he became the president of Jamiat Ulema-i-Pakistan.Under his leadership the party fared very good in the election of 1970. He was nominated member of Islamic Idealogy Council,twice.Where he worked hard to Islamicize the current laws.
He died from a road accident on July 20th 1981(17th Ramadan).He was awrded Tamgha-e-Imtiaz(Medal of Distinction) by president of Pakistan in 1981.

    Monday, June 6, 2011

    ماہ رجب کی فضیلت :۔


    وجہ تسمیہ :۔ قمری تقویم (ہجری کیلنڈر) اسلامی سال کے ساتویں مہینہ کا نام رجب المرجب ہے اس کی وجہ تسمیہ یہ ہے کہ رجب ترجیب سے ماخوذ ہے اور ترجیب کے معنی تعظیم کرنا ہے۔ یہ حرمت والا مہینہ ہے اس مہینہ میں جدال و قتال نہیں ہوتے تھے اس لیے اسے "الاصم رجب" کہتے تھے کہ اس میں ہتھیاروں کی آوازیں نہیں سنی جاتیں۔ اس مہینہ کو "اصب" بھی کہا جاتا ہے کیوں کہ اس میں اللہ تعالیٰ اپنے بندوں پر رحمت و بخشش کے خصوصی انعام فرماتا ہے۔ اس ماہ میں عبادات اور دعائیں مستجاب ہوتی ہیں۔ دور جہالت میں مظلوم، ظالم کے لئے رجب میں بددعا کرتا تھا۔ (عجائب المخلوقات)

    ماہ رجب کی فضیلت :۔

    رجب ان چار مہینوں میں سے ایک ہے جن کو قرآن کریم نے ذکر فرمایا ہے :

    اِنَّ عِدَّۃَ الشُّہُوْرِ عِنْدَ اللّٰہِ اِثْنَا عَشَرَ شَھْرًا فِیْ کِتٰبِ اللّٰہِ یَوْمَ خَلَقَ السَّمٰوٰتِ وَ الْاَرْضِ مِنْھَا اَرْبَعَۃٌ حُرُمٌ ط ذٰلِکَ الدِّیْنُ الْقَیِّمُ فَلَا تُظْلِمُوْا فِیْھِنَّ اَنْفُسِکُمْ (پارہ ١٠، سورہ توبہ، آیت ٣٦)
    ترجمہ :۔"بے شک مہینوں کی گنتی اللہ کے نزدیک بارہ مہینے ہیں اللہ کی کتاب میں جب سے اس نے آسمان اور زمین بنائے ان میں چار حرمت والے ہیں یہ سیدھا دین ہے تو ان مہینوں میں اپنی جان پر ظلم نہ کرو"۔ (کنز الایمان)

    سرکار غوث الثقلین رضی اللہ عنہ لکھتے ہیں کہ "رجب کا ایک نام مطھر ہے۔ " (غنیتہ الطالبین ص ٣٥٣)

    نبی کریم صلی اللہ تعالیٰ علیہ والہ و صحبہ وسلم نے ارشاد فرمایا :۔ رجب اللہ تعالیٰ کا مہینہ ہے اور شعبان میرا مہینہ ہے اور رمضان میری امت کا مہینہ ہے ۔ (ما ثبت من السنۃ ص ١٧٠)

    ایک اور جگہ نبی کریم صلی اللہ تعالیٰ علیہ و الہ و صحبہ وسلم نے یوں ارشاد فرمایا :۔ رجب کی فضیلت تمام مہینوں پر ایسی ہے جیسے قرآن کی فضیلت تمام ذکروں (صحیفوں) کتابوں پر ہے اور تمام مہینوں پر شعبان کی فضیلت ایسی ہے جیسی محمد مصطفی صلی اللہ تعالیٰ علیہ و الہ و صحبہ وسلم کی فضیلت باقی تمام انبیائے کرام پر ہے اور تمام مہینوں پر رمضان کی فضیلت ایسی ہے جیسے اللہ تعالیٰ کی فضیلت تمام (مخلوق) بندوں پر ہے (ما ثبت من السنہ ، ص ١٧٣)

    رجب کی خصوصی فضیلت اور واقعہ معراج شریف

    حدیث شریف کے مطابق "رجب المرجب" اللہ کا مہینہ ہے۔ یہی وجہ ہے کہ اللہ تعالیٰ جل مجدہ نے اپنے محبوب سید المرسلین صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو اپنی حسن الوہیت و ربوبیت کی جلوہ گاہوں میں ستائیس (٢٧) رجب کی شب بلوا کر "معراج شریف" سے مشرف فرمایا۔ ستائیسویں شب میں آقائے دو جہاں علیہ الصلوۃ والسلام حضرت ام ہانی رضی اللہ تعالیٰ عنہا کے مکان (واقع بیت اللہ شریف کی دیواروں موسوم مستجار اور مستجاب کے کارنر رکن یمانی کے سامنے) میں تشریف فرما تھے اور یہیں حضرت جبرئیل امین علیہ السلام ستر یا اسی ہزار ملائکہ کی رفاقت میں رسول اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی خدمت میں حاضر ہوئے تھے، اس موقع پر حضرت جبرئیل علیہ السلام اور حضرت میکائیل علیہ السلام کے ذمہ اللہ تعالیٰ نے یہ کام سونپے کہ میرے محبوب کو براق پر سوار کرانے کے لئے اے جبرئیل تمہارے ذمہ رکاب تھامنا اور اے میکائیل تمہارے ذمہ لگام تھامنا ہے۔ سند المفسرین امام فخر الدین رازی رحمۃ اللہ علیہ نے لکھا ہے، " حضرت جبرئیل علیہ السلام کا براق کی رکاب تھامنے کا عمل، فرشتوں کے سجدہ کرنے سے بھی افضل ہے۔" (تفسیر کبیر جلد دوم صفحہ نمبر ٣٠١ مطبوعہ مصر)

    مکتبہ حقانیہ پشاور کی بددیانتی:۔ امام رازی رحمۃ اللہ علیہ کی متذکرہ تفسیر کبیر کا حوالہ مصری نسخہ سے پیش کیا گیا ہے، جب کہ مکتبہ حقانیہ پشاور (جسے علمائے دیوبند کی سرپرستی حاصل ہے) نے تفسیر کبیر شائع کی ہے۔ اس کی جلد دوم صفحہ ٤٤٥ میں عبارت میں تحریف کر کے یوں چھاپا ہے۔

    "ان جبرئیل علیہ السلام اخذ برکاب محمد صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم حتی ارکبہ علی البراق لیلۃ المعراج و ھذا یدل علی ان محمدا صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم افضل منہ"

    پہلی عبارت میں حضرت جبرئیل علیہ السلام کی خدمت کو "سجود ملائکہ سے افضل" قرار دیا ہے، جب کہ تحریف و بددیانتی کے بعد، "حضرت محمد مصطفی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو حضرت جبرئیل سے افضل" قرار دیا گیا ہے۔ حالانکہ یہ تو حقیقت ہے اس لئے کہ حضور علیہ الصلوۃ والسلام "سید المرسلین" ہے لہذا "سید الملائکہ" بھی ہیں حضرت جبرئیل سے افضل ہیں۔ اس میں کوئی کلام ہے ہی نہیں۔

    جشن معراج النبی اور ہماری ذمہ داریاں

    اسلامی بھائیوں اور بہنوں! جس طرح ہم ماہ ربیع الاول شریف میں جشن عید میلاد النبی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کا انعقاد کرتے ہیں ایسے ہی رجب شریف میں جشن معراج النبی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کا انعقاد کریں مساجد و مدارس ہی نہیں بلکہ اپنے گھروں میں بھی چراغاں کریں ، اجتماعات منعقد کریں، علمائے اہلسنّت کے مواعظ حسنہ (تقاریر) سننے کا اہتمام کریں، اپنے گھر میں اہل خانہ خصوصاً بچوں کو لے کر ادب کے ساتھ بیٹھ کر محفل منعقد کریں ، بچوں کو بتائیں کہ آج کی شب آقائے دو جہاں صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم لا مکاں کی اس منزل تک پہنچے جہاں مخلوق میں سے کسی کی رسائی نہیں اور بلا حجاب اللہ تعالیٰ کا دیدار عطا ہوا، اللہ تعالیٰ کی بے شمار نشانیوں کو ملاحظہ فرمایا، اللہ تعالیٰ جل شانہ کے اسمائ صفات کی تجلیات کے ظہور کے مقامات و طبقات سے گذر کر ان ہی صفات سے متصف ہو کر اللہ تعالیٰ کی ذات و صفات کے مظہر ہوئے، جنت و دوزخ کو ملاحظہ فرمایا، بعد از قیامت اور بعد از جزا سزا جو کچھ ہوگا آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے دیکھا اور یہ کمال اللہ تعالیٰ نے آپ کو ہمیشہ کے لیے عطا فرمایا، یعنی اللہ سبحانہ و تعالیٰ عزوجل نے ماضی و مستقبل (جو کچھ ہو چکا اور جو ہونے والا ہے ) کا علم عطا فرمایا جسے شرعی اصطلاح میں علم ما کان و ما یکون کہتے ہیں ۔ امت کے لیے شفاعت کا حق حاصل کیا، شب معراج میں انبیائ و مرسلین علیہم الصلوٰۃ و السلام اجمعین سے نہ صرف ملاقا ت کی بلکہ ان سب پر آپ اکی فضیلت واضح کرنے کے لیے امامت عظمیٰ و کبریٰ کا منصب آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم ہی کو عطا ہوا۔ نماز کی فرضیت کا حکم اللہ تعالیٰ عزاسمہ نے خاص اپنی حسن الوہیت و ربوبیت کی جلوہ گاہوں میں عطا کیا، اول پچاس نمازیں فرض ہوئیں پھر بتدریج کم ہوتے ہوتے پانچ باقی رہیں۔ نماز کی فرضیت و اہمیت سے بچوں کو آگاہ کریں۔ یہ بھی یاد رکھیں کہ معراج شریف کے سفر مقدس کے تین مرحلے ہیں۔

    اول ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ اسریٰ، یعنی مسجد حرام سے مسجد اقصیٰ تک۔
    دوم ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ معراج۔
    (حصہ اول )۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ یعنی مسجد اقصیٰ سے کہکشاؤں کا سفر آسمان اول تک ۔
    (حصہ دوم)۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ یعنی آسمان اول سے آسمان ہفتم اور سدرۃ المنتہیٰ تک۔
    سوم ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ اعراج، یعنی سدرۃ المنتہیٰ (حضرت جبریل امین علیہ السلام کا مقام آخر) سے لے کر عرش و کرسی اور لامکاں ، اللہ تعالیٰ جل شانہ کی حسن الوہیت ، جمال ربوبیت اور جلال تقدس و تجرد کی جلوہ گاہ تک۔

    خود بھی تلاوت قرآن کریں اور بچوں کو بھی ترجمہ اعلیٰ حضرت علیہ الرحمہ کنز الایمان کے ساتھ قرآن مجید کی تلاوت کا عادی بنائیں۔ معراج شریف سے متعلق مضامین والی آیات مقدسہ، سورئہ الاسرائ (بنی اسرائیل) اور سورئہ النجم کی تلاوت ضرور کریں۔ واقعہ معراج شریف سے متعلق بچوں کو بتائیں کہ یہ عقلوں کو دنگ کرنے والا سفر ایک لمحے میں ہوا۔

    چلے جب عرش کی جانب محمد تو ساکت ہوگئی تھی زندگی تک
    نہ تھی دریا کی موجوں میں روانی تھا ساکت ہر سمندر ہر ندی تک
    زمیں نے چھوڑ دی تھی اپنی گردش خلا میں انتظار روشنی تک
    رہا کس طرح بستر گرم ان کا محقق محو حیرت ہیں ابھی تک
    عناصر زندگی کے منجمد تھے شب اسریٰ میں ان کی واپسی تک
    نہیں سائنس میں ایسی مثالیں ازل کے روز سے پندرہ صدی تک ()

    شب معراج دیدار حق تعالیٰ


    اللہ تعالیٰ نے حضور صلی اللہ علیہ وسلم کو آسمانوں کی، جنت و دوزخ کی، سدرۃ المنتہیٰ کی، عرش الٰہی کی سیر کروائی اور اللہ تعالیٰ نے جہاں تک چاہا آپ نے سیر فرمائی، اس کی قدرت کی نشانیوں کا مشاہدہ فرمایا اور دیدار پرانوار کی نعمت لازوال سے مشرف ہوئے۔ جیسا کہ صحیح بخاری شریف میں حضرت انس رضی اللہ عنہ سے تفصیلی روایت منقول ہے روایت کا ایک حصہ ملاحظہ ہو: حتی جاء سدرۃ المنتھیٰ ودنا للجبار رب العزۃ فتدلی حتی کان منہ قاب قوسین او ادنی۔ یہاں تک کہ حضرت سیدنا محمد صلی اللہ علیہ وسلم سدرۃ المنتہیٰ پر آئے اور جبار رب العزت آپ کے قریب ہوا پھر اور قریب ہو ا یہاں تک کہ دو کمانوں کا فاصلہ رہ گیا یا اس سے بھی زیادہ نزدیک۔ (صحیح بخاری شریف، ج 2، کتاب التوحید، ص 1120 ، حدیث نمبر: 6963

    صحیح مسلم شریف میں روایت ہے: عن عبداللہ بن شقیق قال قلت لابی ذر لو رایت رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم لسألتہ فقال عن ای شیء کنت تسألہ قال کنت اسالہ ھل رایت ربک قال ابو ذر قد سالت فقال رایت نورا۔ حضرت عبداللہ بن شقیق رضی اللہ عنہ نے فرمایا کہ میں نے حضرت ابو ذر رضی اللہ عنہ سے کہا اگر مجھے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے دیدار کی سعادت حاصل ہوتی تو حضور صلی اللہ علیہ وسلم سے سوال کرتا، انہوں نے کہا تم کس چیز کے متعلق سوال کرتے؟ حضرت عبداللہ بن شقیق رضی اللہ عنہ نے عرض کیا: میں حضور صلی اللہ علیہ وسلم سے یہ سوال کرتا کہ کیا آپ نے اپنے رب کو دیکھا ہے؟ حضرت ابو ذر رضی اللہ عنہ نے فرمایا: میں نے آپ سے اس متعلق دریافت کیا تھا، حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: میں نے دیکھا، وہ نور ہی نور تھا۔(صحیح مسلم، ج 2، کتاب الایمان، ص 99 ، حدیث نمبر: 262

    جامع ترمذی شریف میں حدیث پاک ہے : عن عکرمۃ عن ابن عباس قال رای محمد ربہ قلت الیس اللہ یقول لا تدرکہ الابصار و ھو یدرک الابصار قال و یحک اذا تجلی بنورہ الذی ھو نورہ و قد راٰی محمد ربہ مرتین ھٰذا حدیث حسن غریب۔ عکرمہ بیان کرتے ہیں کہ حضرت سیدنا عبداللہ ابن عباس رضی اللہ عنہما نے فرمایا حضرت سیدنا محمد صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنے رب کو دیکھا ہے، میں نے عرض کیا: کیا اللہ تعالیٰ نے یہ نہیں فرمایا: ’’نگاہیں اس کا ادراک نہیں کرسکتیں اور وہ نگاہوں کا ادراک کرتا ہے، حضرت ابن عباس رضی اللہ عنہما نے فرمایا: تم پر افسوس ہے، یہ اس وقت ہے جب اللہ تعالیٰ اپنے اس نور کے ساتھ تجلی فرمائے جو اس کا نور ہے، یعنی غیر متناہی نور اور بے شک سیدنا محمد صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنے رب کو دو مرتبہ دیکھا ہے۔ یہ حدیث حسن غریب ہے۔ (جامع ترمذی شریف ، ج 2، ابواب التفسیر ص 164 ، حدیث نمبر: 3201

    عن ابن عباس فی قول اللہ تعالیٰ و لقد راہ نزلۃ اخری عند سدرۃ المنتہیٰ فاوحی الی عندہ ما اوحیٰ فکان قاب قوسین او ادنی قال ابن عباس قد راہ النبی صلی اللہ علیہ وسلم ھٰذا حدیث حسن۔ حضرت ابن عباس رضی اللہ عنہما نے ان آیات کی تفسیر میں فرمایا: ’’بے شک انہوں نے اس کو دوسری بار ضرور سدرۃ المنتہیٰ کے پاس دیکھا تو اللہ نے اپنے خاص بندہ کی طرف وہ وحی نازل کی جو اس نے کی، پھر وہ دو کمانوںکی مقدار نزدیک ہوا یا اس سے زیادہ‘‘ حضرت ابن عباس نے فرمایا نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنے رب کو دیکھا ہے۔ (جامع ترمذی شریف ، ج 2، ابواب التفسیر ص 164 ، حدیث نمبر: 3202 )۔

    مسند امام احمد میں یہ الفاظ مذکور ہیں: عن عکرمۃ عن ابن عباس قال رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم رایت ربی تبارک و تعالیٰ ۔ سیدنا عبداللہ ابن عباس رضی اللہ عنہما نے بیان فرمایا کہ حضرت رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا: میں نے اپنے رب تبارک و تعالیٰ کو دیکھا۔ یہ حدیث پاک مسند امام احمد میں دو جگہ مذکور ہے۔ (مسند امام احمد، حدیث نمبر: 2449-2502

    از: حضرت مولانامفتی سیدضیاء الدین نقشبندی قادری
    نائب شیخ الفقہ جامعہ نظامیہ وبانی ابوالحسنات اسلامک ریسرچ سنٹر

    کونڈوں کی فاتحہ


    فاتحہ یعنی قرآن مجید کی تلاوت یا کلمہ شریف یا نفلی نمازوں یا کسی بھی بدنی یا مالی عبادتوں کا ثواب کسی دوسرے کو پہنچانا یہ جائز ہے اور اسی کو عام طور پر لوگ فاتحہ دینا اور فاتحہ دلانا کہتے ہیں زندوں کے ایصالِ ثواب سے مُردوں کو فائدہ پہنچتا ہے فقہ اور عقائد کی کتابوں مثلاً ہدایہ و شرح عقائد نسفیہ میں اس کا بیان موجود ہے۔ اس کو بدعت اور ناجائز کہنا جہالت اور ہٹ دھرمی ہے۔ حدیث سے بھی اس کا جائز ہونا ثابت ہے۔ چنانچہ حضرت سعد بن عُبادہ صحابی رضی اللہ تعالٰی عنہ کی والدہ کا جب انتقال ہو گیا تو انہوں نے عرض کیا کہ یارسول اللہ ! میری ماں کا انتقال ہو گیا ان کے لئے کونسا صدقہ افضل ہے ! حضور اقدس نے فرمایا پانی (بہترین صدقہ ہے۔ تو حضور کے فرمان کے مطابق) حضرت سعد رضی اللہ تعالٰی عنہ نے کنواں کھدوا دیا۔ (اور اُسے اپنی ماں کی طرف منسوب کرتے ہوئے) کہا کہ یہ کنواں سعد کی ماں کے لئے ہے۔ (یعنی اس کا ثواب ان کی رُوح کو ملے) (مشکوٰۃ ج1 ص169)

    اسی طرح ایک دوسری حدیث میں ہے کہ ایک شخص نے عرض کیا۔ یارسول اللہ ! میری ماں کا اچانک انتقال ہو گیا اور وہ کسی بات کی وصّیت نہ کرسکی۔ میرا گُمان ہے کہ وہ انتقال کے وقت کچھ بول سکتی تو وہ صدقہ ضرور دیتی۔ تو اگر میں اس کی طرف سے صدقہ کردوں تو کیا اس کی رُوح کو ثواب پہنچے گا ! تو آپ نے ارشاد فرمایا کہ ہاں پہنچے گا۔ (مسلم جلد اول ص 324)

    علانمہ نواوی رحمۃ اللہ تعالٰی علیہ نے اس حدیث کی شرح میں ارشاد فرمایا کہ
    “اس حدیث سے ثابت ہوا کہ اگر میّت کی طرف سے صدقہ کیا جائے تو میت کو اس کا فائدہ اور ثواب پہنچتا ہے۔ اسی پر عُلماء کا اتفاق ہے۔“ (نواوی شرح مسلم ج1 ص324)

    چنانچہ اسی ضمن میں رجب کے مہینے میں چاول یا گھیر پکا کر کونڈوں میں رکھتے ہیں اور حضرت جلال الدین بخاری رحمۃ اللہ تعالٰی علیہ کی فاتحہ دلاتے ہیں۔ اسی طرح ماہِ رجب میں حضرت امام جعفر صادق رحمۃ اللہ تعالٰی علیہ کو ایصالِ ثواب کرنے کیلئے پُوریوں کے کونڈے بھرے جاتے ہیں۔ یہ سب جائز اور ثواب کے کام ہیں مگر کونڈوں کی فاتحہ میں جاہلوں کا یہ فعل مذموم اور نری جہالت ہے کہ جہاں کونڈوں کی فاتحہ ہوتی ہے وہیں کھلاتے ہیں۔ وہاں سے ہٹنے نہیں دیتے۔ یہ پابندی غلط اور بیجا ہے۔ مگر یہ جاہلوں کا طریقہ عمل ہے پڑھے لکھے لوگوں میں یہ پابندی نہیں۔ اسی طرح کونڈوں کی فاتحہ کے وقت ایک کتاب “داستان عجیب“ لوگ پڑھتے ہیں۔ اس میں جو کچھ لکھا ہے اُس کا کوئی ثبوت نہیں۔ لٰہذا اس کو نہیں پڑھنا چاہئیے مگر فاتحہ دلانا چاہئیے کہ یہ جائز اور ثواب کا کام ہے۔
    اسی طرح حضرت غوث اعظم رحمۃ اللہ تعالٰی علیہ و حضرت خواجہ معین الدین چشتی رحمۃ اللہ تعالٰی علیہ و حضرت خواجہ بہاءالدین نقشبند رحمۃ اللہ تعالٰی علیہ و حضرت خواجہ شہاب الدین سُہروردی رحمۃ اللہ تعالٰی علیہ وغیرہ تمام بزرگان دین کی فاتحہ دلانا جائز اور ثواب کا کام ہے۔ جو لوگ ان بزرگوں کی فاتحہ سے منع کرتے ہیں وہ در حقیقت ان بزرگوں کے دشمن ہیں۔ لٰہذا ان کی باتوں پر کان نہیں دھرنا چاہئیے۔ نہ ان لوگوں سے میل جول رکھنا چاہئیے۔ بلکہ نہایت مضبوطی کے ساتھ اپنے مذہب اہل سنّت و جماعت پر قائم رہنا چاہئیے کہ یہی مذہب حق ہے اور اس کے سوا جتنے فرقے ہیں وہ سب صراطِ مستقیم سے بہکے اور بھٹکے ہوئے ہیں۔ خدا وند کریم سب کو اہل سنّت و جماعت کے مذہب پر قائم رکھے۔ اور اسی مذہب پر خاتمہ بالخیر فرمائے۔
    آمین یارب العالمین بحرمۃ النبی الامین وآلہ واصحابہ اجمعیں۔

    مقام عبدیت اور معراج مصطفیٰ


    معجزۂ معراج نسل انسانی کی تاریخ کا وہ سنگ میل ہے جسے قصر ایمان کا بنیادی پتھر بنائے بغیر تاریخ بندگی مکمل نہیں ہوتی اور روح کی تشنگی کا مداوا نہیں ہوتا۔ معراج النبی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم تاریخ انسانی کا ایک ایسا حیرت انگیز، انوکھا اور نادر الوقوع واقعہ ہے جس کی تفصیلات پر عقلِ ناقص آج بھی حیران و ششدر ہے۔

    اسے کچھ سجھائی نہیں دیتا کہ سفر معراج کیونکر طے ہوا؟ عقل حیرت کی تصویر بن جاتی ہے، مادی فلسفہ کی خوگر، اربعہ عناصر کی بے دام باندی عقلِ انسانی یہ سمجھنے سے قاصر ہے کہ انسان کامل حدود سماوی کو عبور کرکے آسمان کی بلندیاں طے کرتا ہوا لامکاں کی وسعتوں تک کیسے پروز کرسکتا ہے اور وہ کچھ دیکھ لیتا ہے جسے دیکھنے کی عام انسانی نظر میں تاب نہیں۔

    اس لئے حدود و قیود کے پابند لوگ اس بے مثال سفر معراج کے عروج و ارتقاء پر انگشت بدنداں ہیں اور اسے من و عن اور مستند انداز سے مذکورہ تفصیلات کے ساتھ بھی ماننے کے لئے تیار نہیں ہوتے اور ایسے ایسے شبہات وارد کرتے ہیں اور تشکیک کا ایسا غبار اڑاتے ہیں کہ دلائل سے غیر مسلح ذہن اور عام آدمی ان سے متاثر ہوئے بغیر نہیں رہ سکتا اور دیوار ایمان متزلزل سی ہونے لگتی ہے۔

    نبی آخرالزماں صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے معجزات میں معجزہ معراج خصوصی اہمیت کا حامل ہے۔ تاریخ انبیاء کی ورق گردانی کی جائے تو ہمیں معلوم ہوتا ہے کہ اپنے برگزیدہ رسولوں اور نبیوں کو اللہ رب العزت نے اپنے خصوصی معجزات سے نوازا۔ ہر نبی کو اپنے عہد، اپنے زمانے اور اپنے علاقے کے حوالے سے معجزات سے نوازا تاکہ ان کی حقانیت ہر فرد بشر پر آشکار ہو اور اسے ایمان کی دولت سے سرفراز کیا جائے۔

    چنانچہ ہم دیکھتے ہیں کہ حضرت موسیٰ علیہ السلام کی امت چونکہ جادو میں کمال رکھتی تھی، ہزاروں جادو گر دربار شاہی سے وابستہ ہوتے، اس لئے خالق کائنات نے بھی اپنے نبی کو جادو کے ان کمالات کا توڑ کرنے کے لئے معجزات عطا کئے۔ اسی طرح حضرت عیسیٰ علیہ السلام کے دور میں طب کا بڑا چرچا تھا۔ چنانچہ حضرت عیسیٰ علیہ السلام مردوں کو زندہ کردینے اور کوڑھیوں کو تندرست کر دینے کی قدرت سے فیض یاب تھے۔ پس ہر نبی اپنے وقت کے ہر کمال سے آگے ہوتا ہے۔ امت جس کمال پر فائز ہوتی ہے نبی اس کمال پر بھی حاوی ہوتا ہے۔

    اب نبی آخرالزماں صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو تشریف لانا تھا۔ باب نبوت و رسالت حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے ساتھ بند ہو رہا تھا۔ ختم نبوت کا تاج سر اقدس پر سجایا گیا۔ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم خاتم المرسلین قرار پائے چنانچہ آقائے دو جہاں صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو ایسے معجزات سے نوازا گیا جن کا مقابلہ تمام زمانوں کی قومیں مل کر بھی نہ کرسکتی تھیں۔

    اللہ رب العزت کو معلوم تھا کہ آئندہ آنے والی اقوام چاند پر قدم رکھیں گی اور ستاروں پر کمندیں ڈالیں گی لہذا اللہ تعالیٰ نے اپنے محبوب نبی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو مکان و لامکاں کی وسعتوں میں سے نکال کر اپنے قرب کی حقیقت عطا فرمائی جس کا گمان بھی عقل انسانی میں نہیں آسکتا تھا۔ حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے باقی تمام معجزات اور دیگر انبیاء و رسل کے تمام معجزات ایک طرف اور حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کا معجزہ معراج ایک طرف، تمام معجزات مل کر بھی معجزہ معراج کی ہمہ گیریت اور عالمگیریت کو نہیں پہنچ سکتے۔

    یہ حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کا دائمی معجزہ ہے جس کی عظمت میں وقت کا سفر طے ہونے کے ساتھ ساتھ اضافہ ہوتا جائے گا اور نئے نئے کائناتی انکشافات سامنے آ کر معجزہ معراج کی حقانیت کی گواہی دیتے رہیں گے۔ ارتقاء کے سفر میں اٹھنے والا ہر قدم سفر معراج میں نقوش کف پا کی تلاش میں سرگرداں ہے۔ آقائے دو جہاں صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا کہ میں مکہ سے اٹھا اور براق پر سوار ہوکر بیت المقدس پہنچا، وہاں سے آسمانوں اور پھر وہاں سے عرش معلی تک گیا حتی کہ مکان و لامکاں کی وسعتیں طے کرتا ہوا مقام قاب و قوسین پر پہنچا اور پھر حسن مطلق کا بے نقاب جلوہ کیا۔

    پیکر مصطفوی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم جامع صفات و کمالات
    حضور اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی تینوں شانوں بشریت، نورانیت اور حقیقت کو الگ الگ معراج نصیب ہوئی۔ اس پر ذہن میں ایک سوال آ سکتا ہے کہ کیا حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی ایک شان کو دوسری سے ممیز کیسے کیا جا سکتا ہے یعنی جب بشریت محمدی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم معراج سے مستفیض ہو رہی تھی تو دوسری شانیں کہاں تھیں اور اسی طرح جب آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی نورانیت و حقیقت کو معراج کرائی جا رہی تھی تو بشریت کہاں تھی؟

    اس سوال کے جواب میں روز مرہ زندگی میں انسان کے فطری احوال کا حوالہ دینا بے محل نہ ہو گا۔

    مثال :۔ جب کوئی آدمی بات کر رہا ہوتا ہے تو اس سے تکلم بالفعل کی حالت ظاہر ہو رہی ہوتی ہے حالانکہ اس میں تکلم کے ساتھ ساتھ خموشی اور سکوت کی حالت بھی بالقوۃ موجود ہوتی ہے۔

    مثال : جب ایک باپ غصے کی حالت میں اپنے بچے کو اس کی خطا پر سزا دے رہا ہوتا ہے، اسے زد و کوب کرر ہا ہوتا ہے تو یہ نہیں کہا جا سکتا کہ اس میں پیار و محبت اور شفقت کا مادہ موجود نہیں ہے بلکہ اس وقت غصہ کی حالت غالب اور پیار و محبت کی صفت مغلوب ہوتی ہے۔

    روز مرہ کے ان دو واقعات کو مثال کے طور پر پیش کر کے یہ کہا جا سکتا ہے کہ حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی شان بشریت کی معراج کے وقت آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے بشری کمالات غالب تھے جبکہ آپ کی نورانیت اور حقیقت کی شانیں ابھی مغلوب تھیں۔ جب آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی نورانیت کو معراج نصیب ہوئی تو آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے روحانی اوصاف و کمالات غالب اور بشریت و حقیقت کی شانیں مغلوب تھیں۔ اسی طرح جب آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی حقیقت و مظہریت کو معراج سے سرفراز کیا گیا تو آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی شان حقیقت و محمدیت کا غلبہ تھا اور باقی دو شانیں مغلوب تھیں جبکہ تینوں شانیں اپنی اپنی جگہ موجود تھیں، کبھی ایک کا غلبہ ہو جاتا اور کبھی دوسری کا۔

    حاصل کلام یہ کہ معراج کے توسط سے حضور اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی ذات و صفات کے ہر پہلو اور ہرشان کی تکمیل بدرجہ اتم کر دی گئی اور آپ اوصاف وکمالات ایزدی کا مظہر اتم بن کر منصہ شہود پر جلوہ گر ہوئے لیکن ان کا کماحقہ ادراک عقل انسانی کی گرفت سے باہر ہے اور آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم اس مقام پر جلوہ گر ہوئے جس مقام کی عظمت کا تصور بھی تمام نورانی اور خاکی مخلوقات کے لئے ممکن نہیں۔

    اللہ رب العزت نے ارشاد فرمایا :

    ثُمَّ دَنَا فَتَدَلَّىO

    (النجم، 53 : 8)

    پھر یہ قریب ہوا پھر وہ اور قریب ہوا۔

    دنی اور تدلی میں فرق
    1۔ دنٰی کا معنی ’’قرب‘‘ ہے اور تدلّٰی کا معنی بھی ’’قریب ہونا‘‘ ہے لیکن دونوں میں فرق یہ ہے کہ ’’دنی‘‘ میں تین حروف (د، ن، ی) ہیں جبکہ تدلی میں حروف (ت، د، ل، ی) کی تعداد چار ہے۔ عربی کا قاعدہ ہے کہ کثرت حروف کثرت معنی پر دلالت کرتے ہیں اور قلت حروف قلت معنی پر دلالت کرتے ہیں۔ ’’دنی‘‘ فعل مصطفیٰ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم ہے اور ’’تدلی‘‘ فعل خدا۔ ’’دنی‘‘ کے کم حروف سے پتہ چلتا ہے کہ محبوب چونکہ مخلوق میں سے تھا اور مخلوق محدود ہے اس لئے اس کا قرب بھی محدود ہے اور رب چونکہ خالق اور لامحدود ہے اس لئے اس کا قرب بھی لامحدود تھا۔ اللہ اللہ ہے اور بندہ بندہ۔ اللہ خالق ہے اور بندہ اس کی مخلوق۔

    حضور اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم ایک مقام پر پہنچ کر رک گئے لیکن اللہ تعالیٰ اتنا قریب ہوا کہ کوئی حد باقی نہ رہی۔ ’’دنی‘‘ کا جواب باری تعالیٰ نے ’’تدلی‘‘ کی صورت میں دیا اور ایسا کیوں نہ ہو۔ حدیث قدسی میں اللہ کا اپنا فیصلہ ہے کہ

    وان تقرب الی شبرا تقربت اليه ذراعا و ان تقرب الی ذراعا تقربت اليه باعا وان اتانی يمشی، اتيته هرولة.

    (صحيح بخاری، کتاب التوحيد، 6 / 2694، الرقم : 6970)

    ’’اگر وہ ایک بالشت میرے نزدیک آئے تو میں ایک بازو کے برابر اس کے نزدیک ہوجاتا ہوں۔ اگر وہ ایک بازو کے برابر میرے نزدیک آئے تو میں دو بازوؤں کے برابر اس کے نزدیک ہوجاتا ہوں اور اگر وہ میری طرف چل کر آئے تو میں اس کی طرف دوڑ کر آتا ہوں‘‘۔

    جس طرح یہاں ’’شبراً‘‘ کا جواب ’’ذراعاً‘‘ سے دیا۔ اسی طرح زیر بحث آیہ کریمہ میں ’’دنی‘‘ کا جواب ’’تدلی‘‘ سے دیا۔

    2۔ سورہ نجم میں ثم دنی فتدلی میں قرب کا ذکر دو دفعہ آیا ہے حالانکہ ایک دفعہ کہنا بھی کافی ہو سکتا تھا۔

    شیخ بقلی شیرازی رحمۃ اللہ علیہ اور بہت سے دیگر عرفاء کاملین نے بحر عرفان میں غواصی کر کے بہت سارے گہر ہائے نایاب دریافت کئے ہیں۔ فرماتے ہیں کہ قرب کا ذکر یہاں دو مرتبہ اس لئے ہوا کہ معراج میں حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو دو قرب نصیب ہوئے۔

    قرب صفات
    قرب ذات
    یعنی اللہ رب العزت کی صفات اور ذات دونوں نے حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو اپنے حصار التفات میں لے لیا۔

    1۔ قرب صفات
    اس قرب میں ثم دنی کی صورت میں ذات باری تعالیٰ نے اپنی صفات تجلیات سے حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو اپنی صفات سے اتنا قریب کر لیا کہ صفات محمدیہ پر صفات الہٰیہ کا رنگ چڑھ گیا یہاں تک کہ آپ صفات الہٰیہ کے مظہر اتم بن گئے۔ یہ صفات الہٰیہ کے حوالے سے حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی معراج تھی۔

    2۔ قرب ذات
    جب حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو صفاتی قرب سے مکمل طور پر بہرہ ور کر دیا گیا تو پھر تجلیات ذات آپ پر جلوہ فگن ہوئیں جس سے آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو وہ ملکہ حاصل ہو گیا کہ آپ چشم سر اور چشم دل دونوں سے خدا کا دیدار کر سکیں۔ یہ قرب ’’تدلی‘‘ کی صورت میں عطا ہوا۔ حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم، اللہ رب العزت کی ذات کے سائبان کرم میں تھے۔ یہ مقام حاصل کرنے والے حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم پہلے اور آخری بندے اور رسول ہیں۔

    جب حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم صفات باری تعالیٰ کے مظہر اتم بن گئے تو آواز آئی کہ اے حبیب! صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم آگے بڑھیئے۔ آپ آگے بڑھتے گئے یہاں تک کہ حبیب لبیب صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم اور محب کے درمیان فاصلہ کم ہوتے ہوتے دو کمان یا اس سے بھی کم رہ گیا۔ مقام قاب قوسین پر قرب و وصال کی وہ منزل آ گئی جو معراج کا نقطہ کمال (Climax) تھا۔ اس سے زیادہ قرب ممکن ہی نہ تھا۔ بایں ہمہ عبد کامل اور معبود حقیقی کے مابین وہ فرق و امتیاز قائم و دائم رہا جو نکتہ توحید کی اساس ہے۔

    قاب قوسین سے کیا مراد ہے؟
    سفر معراج میں قاب قوسین کا ذکر جمیل اس تواتر سے ہوا ہے کہ ذہنوں میں یہ سوال ابھرتا ہے کہ قاب قوسین سے کیا مراد ہے؟ اس کا قرآنی مفہوم کیا ہے؟

    قرآن حکیم میں اللہ رب العزت نے اپنے حبیب صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے انتہائی قرب و وصال کو قاب قوسین کی بلیغ و جمیل عام فہم تمثیل سے بیان فرمایا ہے تاکہ عرب اپنی روز مرہ زبان اور محاورے کے مطابق اس بات کا مفہوم پوری طرح سمجھ سکیں۔ قوسین سے مراد کمانیں یا ابرو یا بازو ہیں اور ’’قاب‘‘ فاصلے کی اس مقدار کو کہتے ہیں جو دو کمانوں کے درمیان ہوتی ہے۔

    جب دو بچھڑے ہوئے دوست مدت بعد ملتے ہیں تو ان کے ملنے کا انداز یہ ہوتا ہے کہ ایک ہاتھ کمان کی صورت میں اوپر اٹھتا ہے اور دوسرا دوست اسی طرح قریب آ کر اپنا ہاتھ اوپر اٹھاتا ہے تو نصف دائرے کی شکل میں دوسری کمان بن جاتی ہے۔ جب دونوں کے مابین معانقے کا عمل تکمیل کو پہنچتا ہے تو ان میں دو کمانوں کا یا اس سے بھی کم فاصلہ رہ جاتا ہے۔ کوئی شک نہیں کہ خدا کی ذات معانقے اور ان لوازمات سے پاک ہے لیکن اپنے حبیب صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے قرب کی انتہائی صورت کو بیان کرنے کے لئے اس تمثیل کے ذریعے بات ذہن نشین کرائی گئی ہے ورنہ باری تعالیٰ تو ہر مثل سے پاک ہے۔ قرآن حکیم میں ارشاد باری تعالیٰ ہے۔

    لَيْسَ كَمِثْلِهِ شَيْءٌ.

    (شوریٰ، 42 : 11)

    ’’اس کی مثل کوئی شئے نہیں‘‘۔

    ہر شئے سے پاک ہونے کے باوجود پھر فرمایا۔

    مَثَلُ نُورِهِ كَمِشْكَاةٍ فِيهَا مِصْبَاحٌ.

    (النور، 24 : 35)

    ’’اس کے نور کی مثال (جو نور محمدی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی شکل میں دنیا میں روشن ہوا) اس طاق (نما سینہ اقدس) جیسی ہے جس میں چراغ (نبوت روشن) ہے‘‘۔

    ان آیات سے معلوم ہوا کہ باری تعالیٰ ہمیں سمجھانے کے لئے مثال ارشاد فرماتا ہے۔ خود اسے مثال کی حاجت و ضرورت نہیں جیسا کہ قرآن مجید میں ارشاد فرمایا کہ

    إِنَّ اللَّهَ لاَ يَسْتَحْيِي أَن يَّضْرِبَ مَثَلاً مَّا بَعُوضَةً فَمَا فَوْقَهَا.

    (البقره، 2 : 26)

    ’’بے شک اللہ تعالیٰ اس بات سے نہیں شرماتا کہ (سمجھانے کے لئے) کوئی بھی مثال بیان فرمائے (خواہ) مچھر کی یا (ایسی چیز کی جو حقارت میں) اس سے بڑھ کر ہو‘‘۔

    قاب قوسین کا تہذیبی، ثقافتی اور مجلسی پس منظر
    اسلام دین فطرت ہے۔ ہر مرحلہ پر انسانی نفسیات کو مدنظر رکھتا ہے۔ قرآن کا اسلوب ہدایت بھی یہ ہے کہ جب وہ کوئی بات اپنے بندوں کو ذہن نشین کرانا چاہتا ہے تو ان کے سماجی پس منظر کو نظر انداز نہیں کرتا اور وہ ان کے ماحول کے مطابق انہیں مخاطب کر کے یا کسی تمثیل یا محاورے کے ذریعہ اپنی ہدایت کی ترسیل کے عمل کو مکمل کرتا ہے۔ چونکہ اہل عرب قرآن کے اولین مخاطبین ہیں اس لئے عرب رسم و رواج کا ثقافتی پس منظر قرآن میں اپنی تمام تر جزئیات کے ساتھ دکھائی دیتا ہے۔

    اہل عرب کے قدیم دستور و رواج کا مطالعہ کرنے سے قاب قوسین کی معنویت کی ایک اور پرت کھلتی نظر آتی ہے۔ جب دو متحارب عرب قبیلے دشمنی کی راہ ترک کر کے ایک دوسرے سے شیر و شکر ہونا چاہتے تو ان کے سردار معاہدہ دوستی کو عملی جامہ پہنانے کے لئے علامتی طور پر دو کمانوں کو ایک دوسرے کے ساتھ ملا کر تیر چلاتے جس سے یہ ظاہر کرنا مقصود ہوتا کہ آج کے بعد دونوں حلیف قبیلوں کا دوست اور دشمن ایک ہو گا۔ ایک کا دوست دوسرے کا دوست اور ایک کا دشمن دوسرے کا دشمن متصور ہو گا اور صلح و جنگ کے معاملوں میں دونوں کا رویہ ایک دوسرے سے مکمل طور پر ہم آہنگ ہو گا۔

    (معارج النبوۃ، 3 : 146)، (روح المعانی، 67 : 48)

    عبد و معبود کا فرق قائم رہا
    تاج عظمت حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے سر اقدس پر رکھا گیا۔ معراج کی شب فضیلتیں قدم قدم پر آپ کے ہمرکاب رہیں۔ آقائے دوجہاں صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم جب مقام قاب قوسین پر پہنچے تو اللہ تعالیٰ نے مزید قریب کر کے سریر آرائے ’’او ادنیٰ‘‘ پر متمکن ہونے کا شرف بخشا۔ قاب قوسین کے بعد ’’او ادنیٰ‘‘ کہہ کر قرآن خاموش ہو گیا کیونکہ اگر قاب قوسین تک بات ختم ہو جاتی تو قرب متعین ہو جاتا لیکن خدا تعالیٰ تو سب فاصلہ مٹانا چاہتا ہے اسی لئے فرمایا ’’او ادنیٰ‘‘ دو کمانوں کی مثال لوگوں کو سمجھانے کے لئے دی حالانکہ محبوب صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم اور محب کے درمیان فاصلہ تو اس سے بھی کم تر ہے۔ ’’ادنیٰ‘‘ کے بعد حتی یا الٰی نہیں لگایا اس لئے کہ یہ حد بھی مقرر نہ ہو جائے کہ کہاں تک فاصلہ کم ہوا۔ او ادنٰی کا لفظ ہمیں یہ بتا رہا ہے کہ محب اور محبوب کے درمیان فقط ایک فرق عبد و معبود کا قائم رہا، باقی سب فاصلے اور امتیازات ختم ہو گئے۔

    احدیت اور احمدیت کی قوسین
    سفر معراج میں اللہ رب العزت کے جلال و جمال کی رعنائیاں لامکاں کی وسعتوں میں ہر طرف بکھری ہوئی دکھائی دیتی ہیں۔ رب کائنات کی الوہیت کے پرچم ہر سمت لہرا رہے ہیں۔ فَكَانَ قَابَ قَوْسَيْنِ أَوْ أَدْنَى سے اگلی آیت فَأَوْحَى إِلَى عَبْدِهِ مَا أَوْحَى ہمیں الوہیت کا درس دے رہی ہے۔ ارشاد ربانی ہے ’’پس اس (خدا) نے وحی کی اپنے بندے کی طرف جو وحی کی‘‘ یعنی باوجود اس انتہائی قرب کے وہ عبد اور میں معبود۔ ۔ ۔ وہ مخلوق اور میں خالق۔ ۔ ۔ وہ مملوک اور میں مالک رہا۔ ۔ ۔ میں نے ہی اسے عالم انسانیت کی طرف مبعوث کیا تاکہ وہ انہیں ضلالت و گمراہی کے اندھیروں سے نکال کر رشد و ہدایت کے اجالوں کی طرف لے جائے لیکن یہ امر ہر قسم کے شک و شبہ سے بالاتر ہے کہ اب الوہیت و رسالت ایک دوسرے کے اتنا قریب ہیں کہ کفر و ایمان کے معاملوں میں ایک پر ایمان دوسرے پر ایمان اور ایک کا انکار دوسرے کے انکار کے متراف ہے۔ اب تم میرے رسول صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے حلقہ بگوش ہو کر میری اطاعت کا اقرار کر سکو گے۔

    اگر تم نے اس کی غلامی سے انحراف کی راہ اختیار کی تو تم فی الواقعہ اپنے اس فعل سے میری توحید سے منحرف ہو جاؤ گے۔ توحید و رسالت پر ایمان میں کسی قسم کا فرق روا رکھا ہی نہیں جا سکتا۔ احدیت و احمدیت کی قوسین باہم ایک دوسرے سے اتنی متصل ہو گئیں کہ ان سے میرے قرب و وصال اور عشق و محبت ہی کا پتہ چل رہا ہے۔ تقرب الی اللہ کا دعویٰ بغیر عشق رسول صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے بے بنیاد ہے۔

    مقام قاب قوسین پر جب حجابات اٹھا دیئے گئے اور مَا زَاغَ الْبَصَرُ وَمَا طَغَى کے مصداق شان محبوبیت یہ تھی کہ نگاہ محبوب صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نہ ہٹی اور نہ ہی حد سے بڑھی بلکہ وصال و دید کا وہ عالم تھا کہ چشم نظارہ ایک لحظہ بھی جمال جہاں آراء سے نہ ہٹنے پائی اور احدیت و احمدیت کی قوسین اس طرح مل گئیں کہ باہمی قرب کی کیفیت ثم دنی فتدلی کی آئینہ دار بن گئی اور آخر میں قاب قوسین کے مقام پر دونوں ایک دوسرے کے اتنے قریب ہو گئے کہ درمیانی فاصلہ برائے نام رہ گیا۔

    یہاں یہ نکتہ قابل توجہ ہے کہ قربت کا ذکر کرتے ہوئے درمیان میں فاصلہ رہنے کا ذکر لابدی اور ضروری سمجھا گیا اس لئے کہ خالق و مخلوق میں چاہے کتنا ہی قرب کیوں نہ ہو، ان کی ہستی جدا جدا ہے اور دونوں کا ایک وجود (Entity) نہیں مانا جا سکتا کہ محبوبیت کے اعلیٰ اور ارفع مقام پر پہنچ کر بھی عبدیت اور معبودیت کا فرق برقرار رہتا ہے۔

    یہاں ایک بات خاص طور پر ذہن نشین کر لینی چاہئے کہ جو شخص عبد و معبود کے فرق کو مٹاتا ہے، کافر ہے۔ عقیدے میں، عقل میں یا ایمان میں، عشق میں یا محبت میں الغرض کسی درجے میں بھی یا کسی سطح پر بھی بندہ رب ہو سکتا ہے نہ رب بندہ ہو سکتا ہے جو عبد کو معبود بنائے یا معبود کو عبد، وہ کافر ہے اور جس طرح عبد اور معبود کا فرق مٹانا کفر ہے اسی طرح فرق عبد و معبود کے سوا کوئی اور فرق ڈالنا بھی کفر ہے۔ سو اعتقاد یہی رکھنا چاہئے کہ مقام ’’او ادنیٰ ‘‘ پر پہنچ کر بھی خدا خدا ہے اور نبی نبی ہے۔

    مقام عبدیت
    اللہ رب العزت کائنات ارض و سماوات کا خالق ہے۔ ہر چیز اس کے دائرہ قدرت میں ہے۔ اس نے معراج کی شب اپنے بندے اور رسول صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم پر عنایات کی بارش کر دی اور اسے وہ عظمت عطا کی جو آج تک نہ کسی رسول کا مقدر بن سکی اور نہ قیامت تک بن سکے گی۔

    اس مقام پر پہنچ کر جہاں تمام دوریاں ختم ہو گئی تھیں قرآن زبان حال سے یوں گویا ہوا۔

    فَأَوْحَى إِلَى عَبْدِهِ مَا أَوْحَىO

    (النجم، 53 : 10)

    پھر (اللہ رب العزت نے بلاواسطہ) اپنے بندہ کو جو وحی فرمانا تھا فرمائی (جو دینا تھا دیا جو بتانا تھا بتایا)

    معلوم ہوا کہ مخلوق میں عبدیت سے بہتر کوئی مقام نہیں مگر افسوس کہ آج لوگ اسی پر جھگڑتے پھرتے ہیں۔ اے کاش! انہیں حقیقت عبدیت سمجھ آ جاتی۔

    متاع بے بہا ہے درد و سوز آرزو مندی
    مقام بندگی دے کر نہ لوں شان خداوندی

    عقیدہ توحید اور واقعہ معراج
    عقیدہ توحید مومن کے ایمان کا مرکز و محور ہے۔ شرک کا سایہ بھی انسان کو دائرہ ایمان سے خارج کر دیتا ہے۔ سفر معراج حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کا ایک معجزہ ہے اور معجزہ رب کائنات کی قدرت مطلقہ کا مظہر ہوتا ہے۔ سفر معراج میں بھی توحید ربانی کے پرچم ہر طرف دکھائی دیتے ہیں۔

    آدم سے حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم تک تمام انبیاء جس آسمانی ہدایت کے ساتھ مبعوث ہوتے رہے اس کا مرکزی نقطہ بھی توحید ہی تھا کہ وہی ذات بندگی کے لائق ہے اور اس کے سوا کوئی معبود نہیں۔ وہ وحدہ لاشریک ہے، کوئی اس کا ہمسر ہے نہ ثانی، نہ اس کی کوئی انتہا ہے اور نہ ابتداء ہے۔ وہ ازل سے ہے اور ابد کے بعد بھی وہی ہے۔ جب کچھ نہ تھا تو وہ تھا جب کچھ نہ ہو گا تو پھر بھی اس کی ذات یکتا و تنہا ہو گی۔ اس ذات کو نہ اونگھ ہے نہ زوال، وہ ہر حاجت سے پاک اور مبرا ہے اور وہ ہر کسی کا حاجت روا ہے۔

    امم سابقہ نے اکثر و بیشتر مسئلہ توحید کے بارے میں ٹھوکر کھائی ہے۔ ان کے اکثر افراد (الا ماشاء اللہ) نے اپنے نبی کو اس کے کمالات و روحانی تصرفات دیکھ کر الوہیت کے درجہ پر پہنچا دیا۔ ان میں سے کسی نے نبی کو خدا کا بیٹا کہا اور کوئی تمثلیث کا قائل ہو گیا۔ گویا نبی کو مقام نبوت سے ہٹا کر خدا کا شریک ٹھہرا لیا تاہم امت مصطفوی کو یہ شرف و افتخار حاصل ہے کہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے عطا کردہ عقیدہ توحید کی تعلیم ان کے قلوب و اذہان میں اس درجہ راسخ ہو گئی کہ اس پر شرک کی گرد پڑنے کا بھی کوئی احتمال باقی نہ رہا۔

    اپنے حبیب صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو قرب کا انتہائی مقام تفویض کر کے ارشاد ہوتا ہے اوحی الی عبدہ ما اوحی ’’ہم نے اپنے بندے کی طرف وحی کی‘‘ اللہ اللہ! بندگی کا کیا مقام ہے کہ خدائی کا مختارِ کُل بنا دیا جائے پھر بھی حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم بندہ ہی رہے۔ عقیدہ توحید میں کسی قسم کے خلجان اور التباس کی کوئی گنجائش نہیں کہ خالصیت اور عبدیت کے فاصلے کا پاٹنا ناممکنات میں سے ہے۔ اس فاصلے کو برقرار رکھنا بہرحال ناگزیر ہے۔

    معراج کا دولہا


    سدرہ سے بھی آگے کون گیا جبریل امین سے پوچھو
    معراج کا دولہا کون بنا جبریل امین سے پوچھو

    چاہیں تو پیر شاہ امم انسان سے ہو نہ پائے رقم
    کیا عرش بریں کیا فرش زمین سب ہے آقا کے زیر قدم
    سلطان مدینہ کا رتبہ جربیل امین سے پوچھو

    سدرہ سے بھی آگے کون گیا جبریل امین سے پوچھو
    معراج کا دولہا کون بنا جبریل امین سے پوچھو

    جبریل سے رب نے فرمایا جنت کے سواری لے کر جا
    محبوب سے جا کر کہہ دینا اب آکے کریں وہ سیر ذرا
    پھر کیسے انہیں بیدار کیا جبریل امین سے پوچھو

    سدرہ سے بھی آگے کون گیا جبریل امین سے پوچھو
    معراج کا دولہا کون بنا جبریل امین سے پوچھو

    ہیں محو راحت شاہ دیں ششپنج میں ہیں جبریل امین
    بیدار کریں شاہ کو کیسے ہو جائے کہیں نہ بے ادبی
    تعظیم نبی ہوتی ہے کیا جبریل امین سے پوچھو

    سدرہ سے بھی آگے کون گیا جبریل امین سے پوچھو
    معراج کا دولہا کون بنا جبریل امین سے پوچھو

    *پاس آکے رسول اعظم کے پاؤں کے جانب کھڑے ہوئے
    تعظیم بجا لائے پہلے پھر پاؤں پہ نوری لب بھی رکھے
    تلوؤں کو دیا ہے جو بوسہ جبریل امین سے پوچھو

    سدرہ سے بھی آگے کون گیا جبریل امین سے پوچھو
    معراج کا دولہا کون بنا جبریل امین سے پوچھو

    اقصٰی پہ سواری جب پونچھی نبیوں کی جماعت حاضر تھی
    کرنے کا ادا رب کا سجدہ سر بستہ جماعت کھڑی ہوئی
    ہیں شرف امامت جسے ملا جبریل امین سے پوچھو

    سدرہ سے بھی آگے کون گیا جبریل امین سے پوچھو
    معراج کا دولہا کون بنا جبریل امین سے پوچھو

    پہنچے آخر اس منزل پر جلتے ہیں جہاں جبریل کے پر
    جبریل رکے سرکار بڑھے، پونچھے ہیں عرش اعظم پر
    مہمان خدا اب کون بنا جبریل امین سے پوچھو

    سدرہ سے بھی آگے کون گیا جبریل امین سے پوچھو
    معراج کا دولہا کون بنا جبریل امین سے پوچھو

    وفا کا سفر


    بسم اللہ الرحمن الرحیم

    حضرت عزیز علیہ السلام اللہ کے برگزیدہ نبی گزرے ہیں جو قوم نبی اسرائیل کی ہدایت کے لئے دنیا میں بھیجے گئے۔ جب قوم بنی اسرائیل کی بداعمالیاں حد سے زیادہ بڑھ گئیں تو ان پر اللہ کی طرف سے قہر نازل ہوا۔ اچانک ایک کافر بادشاہ جس کا نام بخت نصر تھا بہت بڑی فوج لے کر بیت المقدس پر حملہ آورہوا اور شہر کے ایک لاکھ افراد کو قتل کردیا۔ ایک لاکھ کو گرفتار کرلیا اور باقی ملک شام میں ادھر ادھر بکھر کر روپوش ہوگئے۔ نصر بخت کی فوج نے پورے شہر کو توڑ بھوڑ کر اور اجاڑ کر رکھ دیا۔ حضرت عزیز علیہ السلام بھی گرفتار کر لئے گئے۔ کچھ عرصہ کے بعد جب حضرت عزیز علیہ السلام رہا ہوکر اور ایک گدھے پر سوار ہوکر اپنے شہر بیت المقدس میں داخل ہوئے تو اپنے اجرے ہوئے ویران شہر کو دیکھ کر ان کا دل بھر آیا اور رونے لگے۔ اس وقت آپ کے پاس ایک برتن کھجور کا ایک پیالہ انگور کے رس کا تھا۔ آپ اس اجڑے ہوئے شہر کو دیکھ کر سوچنے لگے کہ اس برباد اور اجڑے ہوئے شہر کو اللہ کس طرح آباد فرمائے گا۔ پھر آپ نے درختوں سے کچھ بھل توڑ کر تناول فرمائے اور انگوروں کو نچوڑ کر اس کا شیرہ نوش فرمایا اور بچے ہوئے شربت کو برتن میں بھرلیا گدھے کو ایک مضبوط رسی سے باندھ دیا پھر آپ ایک درخت کے نیچے لیٹ گئے۔ اللہ تعالٰی نے انہیں اپنی قدرت کا مشاہدہ کرانے کیلئے موت کی نیند سلادیا اور پورے سوسال تک سوتے رہے۔ اللہ تعالٰی نے درندوں پرندوں جن و انس سب کی آنکھوں س آپ کو اوجھل کردیا تاکہ کوئی آپ کو دیکھ نہ سکے جب سترہ سال بیت گئے تو اللہ تعالٰی نے ملک فارس کے ایک بادشاہ کو اپنے لشکر کے ہمراہ بیت المقدس کے اس ویرانے میں مسلط کیا۔ اس بادشاہ نے اس شہر کو پہلے سے بہتر طریقے پر آباد کیا۔ نبی اسرائیل کے وہ لوگ جو ادھر ادھر رو پش ہوگئے تھے ان کی اولادیں دوبارہ بیت المقدس میں آکر اباد ہوگئیں۔ سو سال کے بعد جب حضرت عزیز علیہ السلام دوبارہ بیدار ہوئے تو دیکھا کہ آپ کا گدھا مرا پرا ہے۔ اس کی ہڈیاں گل سڑ کر ادھر ادھر بکھر چکی ہیں۔ مگر تھیلے میں رکھے ہوئے پھل اور برتن یں رکھا ہوا انگھور کا شیرہ بالکل درست ہے۔ آپ کی عمر وہی چالیس سال ہے سر اور داڑھی کے بال بالکل کالے ہیں۔ بیت المقدس پہلے سے زیادہ بارونق اورآباد ہے۔ آپ حیرانی کے عالم میں سوچ بچار میں پرے ہوئے تھے کہ حضرت جبرائیل امین وحی کے ذریعے اللہ تعالٰی کا پیغام لے کر آئے ۔ فرمایا ْ ْ تم یہاں کتنے عرصہ رہے ْ ْ آپ نے اندازے سے عرض کی ْ ْ ایک دن یا کچھ کم۔“
    اللہ تعالٰی نے ارشاد فرمایا تم پورے ایک سوسال یہاں رہے۔ اپنے گدھے کو دیکھو وہ مرگیا ہے اس کے اعضاء بکھر گئے ہیں۔ اب ذرا میری قدرت دیکھو کہ آپ کا کھانا جو چند گھنٹوں کے بعد سٹر جاتا ہے جوں کا توں صحیح سلامت ہے۔ دیکھو گدھے کا بکھرا ہوا ڈھانچہ کیسے جڑتا ہے، یکایک ان کی نگاہ کے سامنے گدھے کے اعضاء جمع ہوئے اور اپنے اپنے مقام پر جالگے۔ ہڈیوں پر گوشت چڑھا۔ گوشت پر کھال آئی، کھال پر بال نکلے پھر اس میں روح پھونکی اور وہ اٹھ کھڑا ہوا۔ (ملا حظہ کیجئے سورۃ بقرہ رکوع 35 تفسیر جمل علی الجلالین جلد اول صفحہ 212 تا 215)
    قرآن مجید کے اس سچے واقعے سے یہ ثابت ہوتا ہے کہ اللہ تعالٰی ہر شے پر قدرت رکھنے والا ہے۔ یہ دن و رات، یہ ماہ و سال، یہ زماں و مکاں اور یہ حدود و قیود سب کچھ حکم الٰہی کے تابع ہیں۔ کسی میں یہ مجال نہیں کہ اس کے حکم کی نافرمانی کرے۔ ایک طرف کارخانہ عالم کو روک دیا اور حضرت عزیز علیہ السلام سوسال تک سوتے رہے۔ آپ کی عمر چالیس سال ہی رہی جب کہ دوسری طرف زمانے کی رفتار متحرک تھی۔ چاند اپنی جگہ متحرک تھا، سورج اپنی جگہ، ہر چیز اپنے اپنے حساب سے جاری و ساری رہی۔ معلوم ہوا وقت کی قید ہم انسانوں کےلئے ہے اللہ تعالٰی اس کا محتاج نہیں۔ وہ اس پر قدرت رکھتا ہے کہ ہزار سال کو بھی لمحوں میں بدل دے اور ہمیں اس کا احساس تک نہ ہو۔ اس حقیقت کو جان لینے کے بعد واقعہ معراج کو سمجھنا مشکل نہیں واقعہ معراج بھی اللہ تعالٰی کی قدرت کی نشانیوں میں سے ایک نشانی ہے جو چشم زدن میں بظاہر رونما ہوا لیکن حقیقت میں اس میں کتنا وقت لگا یہ اللہ اور اس کا رسول بہتر جانتے ہیں۔
    اللہ تعالٰی نے اس واقعہ میں اپنے محبوب پیغمبر حضرت محمد کو اپنی قدرت کامل کا مشاہدہ کرایا واقعہ معراج اعلان نبوت کے دسویں سال اور مدینہ ہجرت سے ایک سال پہلے مکہ میں پیش آیا۔
    ماہ رجب کی ستائیسویں رات ہے اللہ تعالٰی فرشتوں سے ارشاد فرماتا ہے۔ اے فرشتو آج کی رات میری تسبیح بیان مت کرو میری حمد و تقدیس کرنا بند کردو آج کی رات میری اطاعت و بندگی چھوڑ دو بلکہ آج کی رات جنت الفردوس کو لباس اور زیور سے آراستہ کرو۔ میری فرمانبرداری کا کلاہ اپنے سر پر باندھ لو۔ اے جبرائیل میرا یہ پیغام میکائیل کو سنا دو کہ رزق کا پیمانہ ہاتھ سے علیحدہ کردے۔ اسرافیل سے کہہ دو کہ وہ صور کو کچھ عرصہ کےلئے موقوف کردے۔ عزرائیل سے کہہ دو کہ کچھ دیر کےلئے روحوں کو قبض کرنے سے ہاتھ اٹھالے۔ رضوان سے کہہ دو کہ وہ جنت الفردوس کی درجہ بندی کرے۔ مالک دربان دوزخ سے کہہ دو کہ دوزخ کو تالہ لگادے۔ خلد بریں کی حوروں سے کہہ دو کہ آراستہ و پیراستہ ہوجائیں اور جنت کی چھتوں پر صف بستہ کھڑی ہوجائیں۔ مشرق سے مغرب تک جس قدر قبریں ہیں ان سے عذاب ختم کردیا جائے۔ آج کی رات شب معراج کی رات میرے محبوب حضرت محمد صلی اللہ تعالٰی علیہ وآلہ وسلم کے استقبال کےلئے تیار ہو جاؤ۔ (ملاحطہ کیجئے معارج البنوۃ علامہ کا شفی رحمۃ اللہ علیہ )
    چشم زدن میں عالم بالا کا نقشہ بدل دیا گیا حکم ربی ہوا اے جبرائیل اپنے ساتھ ستر ہزار فرشتے لے جاؤ۔ حکم الٰہی سن کر جبریل امین سواری لینے جنت میں جاتے ہیں اور آپ نے ایسی سواری کا انتخاب کیا جو آج تک کسی شہنشاہ کو بھی میسر نہ ہوئی ہوگی۔ میسر ہونا تو دور کی بات ہے دیکھی تک نہ ہوگی۔ اس سواری کا نام براق ہے۔ تفسیر روح البیان میں ہے کہ “ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے پہلے براق پر کوئی سوار نہیں ہوا۔“(ملا حظہ ہو تفسیر ہو روح البیان صفحہ 108 )

    ماہ رجب کی ستائیسویں شب کس قدر پر کیف رات ہے مطلع بالکل صاف ہے فضاؤں میں عجب مستی سی طاری ہے۔ رات آہستہ آہستہ کیف و نشاط کی مستی میں مست ہوتی جارہی ہے۔ ستارے پوری آب و تاب کے ساتھ جھلملا رہے ہیں۔ پوری دنیا پرسکوت و خاموشی کا عالم طاری ہے۔ نصف شب گزرنے کو ہے کہ یکایک آسمانی دنیا کا دروازہ کھلتا ہے۔ انوار و تجلیات کے جلوے سمیٹے حضرت جبرائیل علیہ السلام نورانی مخلوق کے جھرمٹ میں جنتی براق لئے آسمان کی بلند یوں سے اتر کر حضرت اُم ہانی کے گھر تشریف لاتے ہیں جہاں ماہ نبوت حضرت محمد صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم محو خواب ہیں۔ آنکھیں بند کئے، دل بیدار لئے آرام فرما رہے ہیں۔ حضرت جبرائیل امین ہاتھ باندھ کر کھڑے ہیں اور سوچ رہے ہیں کہ اگر آواز دے کر جگایا گیا تو بے ادبی ہو جائے گی فکرمند ہیں کہ معراج کے دولہا کو کیسے بیدار کیا جائے۔ اسی وقت حکم ربی ہوتا ہے یا جبریل قبل قدمیہ اے جبریل میرے محبوب کے قدموں کو چوم لے تاکہ تیرے لبوں کی ٹھنڈک سے میرے محبوب کی آنکھ کھل جائے اسی دن کے واسطے میں نے تجھے کافور سے پیدا کیا تھا۔ حکم سنتے ہی جبرائیل امین آگے بڑھے اور اپنے کافوری ہونٹ محبوب دوعالم حضرت محمد صلی اللہ علیہ وسلم 
    کے پائے ناز سے مس کردئے۔ 
    یہ منظر بھی کس قدر حسیین ہوگا جب جبریل امین نے فخر کائنات حضرت محمد صلی اللہ علیہ وسلم کے قدموں کو بوسہ دیا۔ حضرت جبرائیل امین کے ہونٹوں کی ٹھنڈک پا کر حضور صلی اللہ علیہ وسلم بیدار ہوتے ہیں اور دریافت کرتے ہیں اے جبرائیل کیسے آنا ہوا۔ عرض کرتے ہیں یا رسول اللہ خدائے بزرگ و برترکی طرف سے بلاوے کا پروانہ لے کر حاضر ہوا ہوں۔
     
    ان اللہ اشتاق الی لقائک یارسول اللہ
    یا رسول اللہ! اللہ تعالٰی آپ کی ملاقات کا مشتاق ہے۔ حضرت تشریف لے چلئے زمین سے لیکر آسمانوں تک ساری گزرگاہوں پر مشتاق دیدکا ہجوم ہاتھ باندھے کھڑا ہے۔ (ملا حظہ ہو معارج النبوۃ علامہ کا شفی رحمۃ اللہ)۔ 
    چنانچہ آپ نے سفر کی تیاری شروع کی۔ اس موقع پر جبرائیل امین نے آپ کا سینہ مبارک چاک کیا اور دل کو دھویا۔ حضور صلی اللہ علیہ وسلم کا ارشاد گرامی ہے کہ ْ ْ میرے پاس ایک آنے والا آیا اور اس نے میرا سینہ چاک کیا ۔۔۔۔۔۔۔۔۔سینہ چاک کرنے کے بعد میرا دل نکالا پھر مرے پاس سونے کا ایک طشت لایا گیا جو ایمان و حکمت سے لبریز تھا۔ اس کے بعد میرے دل کو دھویا گیا پھر وہ ایمان و حکمت سے لبریز ہوگیا۔ اس قلب کو سینہ اقدس میں اس کی جگہ پر رکھ دیا گیا۔ (بخاری شریف جلد اول صفحہ 548 ) 
    مسلم شریف میں ہے کہ جبرائیل علیہ السلام نے سینہ چاک کرنے کے بعد قلب مبارک کو زم زم کے پانی سے دھویا اور سینہ مبارک میں رکھ کر سینہ بند کردیا۔ 
    (ملاحظہ کیجئے مسلم شریف جلد اول صفحہ 92) 
    حضرت جبرائیل امین فرماتے ہیں کہ قلب ہر قسم کی کجی سے پاک اور بے عیب ہے اس میں دو آنکھیں ہیں جو دیکھتی ہیں اور دو کان ہیں جو سنتے ہیں۔
    (ملا حظہ کیجئے فتح الباری جلدد 13 صفحہ 410)
    سینہ اقدس کے شق کئے جانے میں کئی حکمتیں ہیں جن میں ایک حکمت یہ ہے کہ قلب اطہر میں ایسی قوت قدسیہ شامل ہو جائے جس سے آسمانوں پر تشریف لے جانے اور عالم سماوات کا مشاہدہ کرنے بالخصوص دیدار الٰہی کرنے میں کوئی دقت اور دشواری پیش نہ آئے۔ پھر آپ کے سر پر عمامہ باندھا گیا۔ 
    علامہ کاشفی رحمۃ اللہ علیہ فرماتے ہیں شب معراج حضرت محمد صلی اللہ علیہ وسلم کو جو عمامہ شریف پہنایا گیا وہ عمامہ مبارک حضرت آدم علیہ السلام  حضرت جبرائیل نے حضور سرور کونین حضرت محمد  صلی اللہ تعالٰی علیہ وآلہ وسلم کو نور کی ایک چادر پہنائی۔ زمرد کی نعلین مبارک پاؤں میں زیب تن فرمائی، یا قوت کا کمر بند باندھا۔ 
    (ملا حظہ کیجئے معارج النبوۃ صفحہ 401) 
    حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے براق کا حلیہ بیان کرتے ہوئے ارشاد فرمایا “سینہ سرخ یا قوت کی مانند چمک رہا تھا، اس کی پشت بجلی کوندت تھی، سٹانگیں سبز زمرد، دم مرجان، سر اور اس کی گردن یا قوت سے پیدا کی تھی۔ بہشتی زین اس پر کسی ہوئی تھی جس کے ساتھ سرخ یا قوت کے دور، کاب آویزاں تھے اس کی پیشانی پر لا الہ الا اللہ محمد رسول اللہ
     لکھا ہوا تھا۔ 
    چند لمحوں کے بعد وہ وقت بھی آگیا کہ حضور سرور کونین حضرت محمد صلی اللہ علیہ وسلم براق پر تشریف فرما ہوگئے۔ حضرت جبرائیل امین نے رکاب تھام لی۔ حضرت میکائیل علیہ السلام نے لگام پکڑی۔ حضرت اسرافیل علیہ السلام نے زین کو سنبھالا۔ حضرت امام کاشفی رحمۃ اللہ علیہ فرماتے ہیں کہ شب معراج کی رات اسی ہزار فرشتے حضور صلی اللہ علیہ وسلم کے دائیں طرف اور اسی ہزار بائیں طرف تھے۔ (ملاحظہ کیجئے معارج النبوۃ ص 406) 
    فضا فرشتوں کی درود و سلام کی صداؤں سے گونج اٹھی اور آقائے نامدار حضرت محمد صلی اللہ علیہ وسلم درود و سلام کی گونج میں سفر معراج کا آغاز فرماتے ہیں۔ اس واقعہ کو قرآن مجید میں اللہ تعالٰی نے اس طرح بیان فرمایا ہے۔ 
    سبحن الذی اسری بعبدہ لیلا من المسجد الحرام الی المسجد الاقصا الذی برکنا حولہ لنریہ من ایتنا 
    ترجمہ: پاک ہے وہ جو اپنے بندہ خاص کول ے گیا رات میں مسجد حرام سے مسجد اقصٰی تک وہ مسجد جس کے ارد گرد ہم نے برکت فرمادی ہے تاکہ ہم اسے دکھائیں اپنی نشانیاں۔

    آپ صلی اللہ علیہ وسلم نہایت شان و شوکت سے ملائکہ کے جلوس میں مسجد حرام سے مسجد اقصٰی کی طرف روانہ ہوتے ہیں۔ یہ گھڑی کس قدر دلنواز تھی کہ جب مکاں سے لا مکاں تک نور ہی نور پھیلا ہوا تھا سواری بھی نور تو سوار بھی نور باراتی بھی نور تو دولہا بھی نور، میزبان بھی نور، نوریوں کی یہ نوری بارات فلک بوس پہاڑیوں بے آب و گیار ریگستانوں گھنے جنگلوں چٹیل میدانوں سر سبز و شاداب وادیوں پر خطر ویرانوں پر سے سفر کرتی ہوئی وادی بطحا میں پہنچی جہاں کھجور کے بے شمار درخت ہیں۔ حضرت جبرائیل عرض کرتے ہیں کہ حضور یہاں اتر کر دو رکعت نفل ادا کیجئے یہ آپ کی ہجرت گاہ مدینہ طیبہ ہے۔ نفل کی ادائیگی کے بعد پھر سفر شروع ہوتا ہے راستے میں ایک سرخ ٹیلے سے گزرا تو میں نے دیکھا کہ وہاں موسٰی علیہ السلامکی قبر ہے اور وہ اپنی قبر میں کھڑے ہوکر نماز پڑھ رہے ہیں۔ پھر دیکھتے ہی دیکھتے بیت المقدس بھی آگیا جہاں قدسیوں کا جم غفیر سلامی کیلئے بے چین و بے قرار کھڑے تھے۔ حضور صلی اللہ علیہ وسلم اس مقام پر تشریف فرما ہوئے جسے باب محمد (صلی اللہ علیہ وسلم) کہا جاتا ہے۔ جبریل علیہ السلام ایک پتھر کے پاس آئے جو اس جگہ موجود تھا جبریل علیہ السلام نے اس پتھر میں اپنی انگلی مار کر اس میں سوراخ کر دیا اور براق کو اس میں باندھ دیا۔ (ملاحظہ کیجئے تفسیر ابن کچیر جلد 3 صفحہ 7)
    آفتاب نبوت حضرت محمد صلی اللہ تعالٰی علیہ وآلہ وسلم مسجد اقصٰی میں داخل ہوتے ہیں صحن حرم سے فلک تک نور ہی نور چھایا ہوا ہے۔ ستارے ماند پڑ چکے ہیں۔ قدسی سلامی دے رہے ہیں۔ حضرت جبرائیل امین اذان دے رہے ہیں۔ تمام انبیاء و رُسل صف در صف کھڑے ہو رہے ہیں جب صفیں درست ہو چکیں تو امام الانبیاء فخر دو جہاں حضرت محمد صلی اللہ تعالٰی علیہ وآلہ وسلم امامت فرمانے تشریف لاتے ہیں۔ تمام انبیاء و رسل امام الانبیاء کی اقتداء میں دو رکعت نماز ادا کرکے اپنی نیاز مندی کا اعلان کرتے ہیں۔ ملائکہ اور انبیاء کرام سب کے سب سر تسلیم خم کئے ہوئے کھڑے ہیں۔ بیت المقدس نے آج تک ایسا دلنواز منظر روح پرور سماں نہیں دیکھا ہوگا۔ وہاں سے فارغ ہوتے ہیں عظمت و رفعت کے پرچم پھر بلند ہونے شروع ہوتے ہیں۔ درود و سلام سے فضا ایک مرتبہ پھر گونج اٹھتی ہے۔ حضور سرور کونین حضرت محمد صلی اللہ تعالٰی علیہ وآلہ وسلم نوری مخلوق کی جھرمٹ میں آسمان کی طرف روانہ ہوتے ہیں۔ حضور صلی اللہ تعالٰی علیہ وآلہ وسلم 
    فرماتے ہیں ثمہ عرج بی پھر مجھے اُوپر لے جایا گیا۔ براق کی رفتار کا عالم یہ تھا کہ جہاں نگاہ کی انتہاء ہوتی وہاں بُراق پہلا قدم رکھتا۔ فوراً ہی پہلا آسمان آ گیا۔ حضرت جبرائیل امین نے دروازہ کھٹکھٹایا۔ دربان نے پوچھا کون ہے ؟ 
    جواب دیا جبرائیل ۔ دربان سے پوچھا من معک تمہارے ساتھ کون ہے ؟ جبرائیل امین نے کہا حضرت محمد صلی اللہ تعالٰی علیہ وآلہ وسلم۔ دربان نے کہامرحبا دروازے انہی کیلئے کھولے جائیں گے۔ چنانچہ دروازہ کھول دیا گیا آسمان اول پر حضرت آدم علیہ السلام نے حضور سرور کونین صلی اللہ تعالٰی علیہ وآلہ وسلم کو خوش آمدید کہا۔ دوسرے آسمان پر پہنچے تو حضرت عیسٰی علیہ السلام اور حضرت یحیٰی علیہ السلام نے حضور صلی اللہ تعالٰی علیہ وآلہ وسلم کو خوش آمدید کہا۔ تیسرے آسمان پر حضرت یوسف علیہ السلام نے چوتھے آسمان پر حضرت ادریس علیہ السلام نے پانچویں آسمان پر حضرت ہارون علیہ السلام نے چھٹے آسمان پر حضرت موسٰی علیہ السلام نے اور ساتویں آسمان پر حضرت ابراہیم علیہ السلام نے حضور سرور کونین حضرت محمد صلی اللہ تعالٰی علیہ وآلہ وسلم کا استقبال کیا اور خوش آمدید کہا۔ پھر آپ صلی اللہ تعالٰی علیہ وآلہ وسلم کو جنّت کی سیر کرائی گئی۔ پھر آپصلی اللہ تعالٰی علیہ وآلہ وسلم اس مقام پر پہنچے جہاں قلم قدرت کے چلنے کی آواز سنائی دیتی تھی۔ اس کے بعد پھر آپ صلی اللہ تعالٰی علیہ وآلہ وسلم سدرۃ المنتہٰی تک پہنچے۔ سدرہ وہ مقام ہے جہاں مخلوق کے عُلوم کی انتہاء ہے۔ فرشتوں نے اذن طلب کیا کہ اے اللہ تیرے محبوب تشریف لا رہے ہیں ان کے دیدار کی ہمیں اجازت عطا فرما۔ اللہ تعالٰی نے حکم دیا کہ تمام فرشتے سدرۃ المنتہٰی پر جمع ہو جائیں جب میرے محبوب کی سواری آئے تو سب زیارت کر لیں چنانچہ ملائکہ سدرہ پر جمع ہو گئے اور جمال محمد (صلی اللہ تعالٰی علیہ وآلہ وسلم) کو دیکھنے کیلئے سدرہ کو ڈھانک لیا۔ (ملاحظہ کیجئے در منثور جلد6 صفحہ 126) 
    اس مقام پرجبرائیل امین رک گئے اور عرض کرنے لگے یارسول اللہ ہم سب کیلئے ایک جگہ مقرر ہے اب اگر میں ایک بال بھی آگے بڑھوں گا تو اللہ تعالٰی کے انوار و تجلیات میرے پروں کو جلا کر رکھ دیں گے یہ میرے مقام کی انتہاء ہے۔ سبحان اللہ حضور اکرم صلی اللہ تعالٰی علیہ وآلہ وسلم کی رفعت و عظمت کا اندازہ لگائیے کہ جہاں شہباز سدرہ کے بازو تھک جائیں اور روح الامین کی حد ختم ہو جائے وہاں حضور صلی اللہ تعالٰی علیہ وآلہ وسلم کی پرواز شروع ہوتی ہے۔ اس موقع پر حضور صلی اللہ تعالٰی علیہ وآلہ وسلم ارشاد فرماتے ہیں اے جبرائیل کوئی حاجت ہو تو بتاؤ۔ جبرائیل امین نے عرض کی حضور یہ مانگتا ہوں کہ قیامت کے دن پُل صراط پر آپ کی اُمت کیلئے بازو پھیلا سکوں تاکہ حضور کا ایک ایک غلام آسانی کے ساتھ پُل صراط سے گزر جائے۔(ملاحظہ کیجئے روح البیان جلد خامس صفحہ 221) 
    حضور تاجدارِ انبیاء صلی اللہ تعالٰی علیہ وآلہ وسلم جبرائیل امین کو چھوڑ کر تنہا انوار و تجلیات کی منازل طے کرتے گئے۔ مواہب الدنیہ میں ہے کہ جب حضور صلی اللہ تعالٰی علیہ وآلہ وسلم عرش کے قریب پہنچے تو آگے حجابات ہی حجابات تھے تمام پردے اٹھا دئیے گئے۔ اس واقعہ کو قرآن مجید اس طرح بیان فرماتا ہے۔ 
    فاستوی وھو بالافق الاعلی (سورہ نجم7) 
    ترجمہ :۔ پھر اللہ نے قصد فرمایا اور وہ آسمان بریں کے بلند کنارہ پر تھا۔ 
    اس آیت کی تفسیر میں مفسر قرآن حضرت امام رازی رحمۃ اللہ تعالٰی فرماتے ہیں کہ حضور سرور دو عالم حضرت محمد صلی اللہ تعالٰی علیہ وآلہ وسلمشبِ معراج آسمان بریں کے بلند کناروں پر پہنچے تو تجلی الٰہی متوجی نمائش ہوئی۔ صاحب تفسیر روح البیان نے فرمایا کہ فاستوی کے معنی یہ ہیں کہ حضور سید عالم صلی اللہ تعالٰی علیہ وآلہ وسلم 
    نے افق اعلٰی یعنی آسمانوں کے اوپر جلوہ فرمایا۔ 
    پھر وہ مبارک گھڑی بھی آ گئی کہ پیغمبر اسلام حضرت محمد مصطفٰے صلی اللہ تعالٰی علیہ وآلہ وسلم حریم الٰہی میں پہنچے اور اپنے سر کی آنکھوں سے عین عالم بیداری میں اللہ تعالٰی کی زیارت کی۔ قرآن مجید محبوب و محّب کی اس ملاقات کا منظر ان دلکش الفاظوں میں بیان کرتا ہوں۔
     
    ثم دنا فتدلی فکان قاب قوسین او ادنی (سورہ نجم 9۔ 8 ) 
    پھر وہ جلوہ نزدیک ہوا۔ پھر خوب اتر آیا تو اس جلوے اور اس محبوب میں دو ہاتھ کا فاصلہ رہا بلکہ اس سے بھی کم۔ 
    صاحب روح البیان فرماتے ہیں کہ حضور صلی اللہ تعالٰی علیہ وآلہ وسلم اللہ تعالٰی کے قرب سے مشرف ہوئے یا یہ کہ اللہ تعالٰی نے اپنے حبیب کو اپنے قرب سے نوازا۔ (روح البیان) 
    جب حضور سرور کونین صلی اللہ تعالٰی علیہ وآلہ وسلم بارگاہِ الٰہی میں پہنچے تو ارشاد فرمایا۔ 
    فاوحی الی عبدہ ما اوحی (سورہ نجم10) 
    ترجمہ:۔ اب وحی فرمائی اپنے بندے کو جو وحی فرمائی۔ 
    حضرت امما جعفر صادق رحمۃ اللہ تعالٰی علیہ فرماتے ہیں کہ یہ وحی اللہ تعالٰی نے براہِ راست اپنے محبوب کو ارشاد فرمائی درمیان میں کوئی وسیلہ نہ تھا۔ پھر راز و نیاز کی گفتگو ہوئی۔ اسرار و رموز سے آگاہی فرمائی جسے اللہ تعالٰی نے تمام مخلوق سے پوشیدہ رکھا۔ اس گفتگو کا علم اللہ تعالٰی اور حضور صلی اللہ تعالٰی علیہ وآلہ وسلم 
    ہی کو ہے۔ 
    اللہ تعالٰی قرآن مجید میں ارشاد فرماتا ہے۔ 
    ما کذب الفؤاد مارای (سورہ نجم 11) 
    ترجمہ:۔ دل نے جھوٹ نہ کہا جو دیکھا۔ 
    اس آیت مبارکہ میں حضور سرور کونین حضرت محمد صلی اللہ تعالٰی علیہ وآلہ وسلم کے قلبِ انور کی عظمت کا بیان ہے کہ شبِ معراج آپ صلی اللہ تعالٰی علیہ وآلہ وسلم کی مقدس آنکھوں نے انوار و تجلیات اور برکاتِ الٰہی دیکھے حتٰی کہ اللہ تعالٰی کے دیدار پرانوار سے مشرف ہوئے تو آنکھ نے جو دیکھا دل نے اس کی تصدیق کی یعنی آنکھ سے دیکھا اور دل نے گواہی دی اور اس دیکھنے میں شک و تردد اور وہم نے راہ نہ پائی۔ اللہ تعالٰی قرآن مجید میں اپنے محبوب صلی اللہ تعالٰی علیہ وآلہ وسلم کی آنکھوں کا ذکر فرماتا ہے۔ 
    مازاع البصر وما طفی (سورہ نجم 17) 
    ترجمہ :۔ آنکھ نہ کسی طرف پھری نہ حد سے بڑھی۔ 
    اس آیت کریمہ میں حضور صلی اللہ تعالٰی علیہ وآلہ وسلم کی مقدس آنکھوں کا ذکر ہے کہ جب آپ صلی اللہ تعالٰی علیہ وآلہ وسلم شبِ معراج کی رات اس مقام پر پہنچے جہاں سب کی عقلیں دنگ رہ جاتی ہیں وہاں آپ دیدار الٰہی سے مشرف ہوئے تو اس موقع پر آپ صلی اللہ تعالٰی علیہ وآلہ وسلم نے دائیں بائیں کہیں بھی نہیں دیکھا۔ نہ آپ کی آنکھیں بہکیں بلکہ خالق کائنات کے جلوؤں میں گم تھیں۔ واقعہ معراج کا ذکر کرتے ہوئے اللہ تعالٰی قرآن مجید میں مذید ارشاد فرماتا ہے۔ 
    لقد رای من ایت ربہ الکبری (نجم آیت18 ) 
    ترجمہ :۔ بے شک آپ نے اپنے رب کی بہت بڑی نشانیاں دیکھیں۔ 
    اس آیت مقدس میں بنایا گیا ہے کہ شبِ معراج کی رات حضور صلی اللہ تعالٰی علیہ وآلہ وسلم کی مقدس آنکھوں نے اللہ تعالٰی کی بڑی بڑی نشانیاں ملک و ملکوت کے عجائب کو ملاحظہ فرمایا اور تمام معلوماتِ غیبیہ کا آپ کو علم حاصل ہو گیا۔ (ملاحظہ کیجئے روح البیان) 
    رسول اکرم صلی اللہ تعالٰی علیہ وآلہ وسلم نے ارشاد فرمایا۔ 
    رایت ربی فی احسن صورۃ فوضع کفہ بین کتفی فواحدت بردھا ۔۔۔۔۔ 
    ترجمہ :۔ میں نے اپنے رب کو حسین صورت میں دیکھا پھر اس نے میرے دونوں کندھوں کے درمیان اپان ید قدرت رکھا اس سے میں نے اپنے سینے میں ٹھنڈک پائی اور زمین و آسمان کی ہر چیز کو جان لیا۔ (ملاحظہ کیجئے مشکوٰۃ شریف صفحہ 28 ) 
    ایک موقع پر مذید ارشادِ نبوی صلی اللہ تعالٰی علیہ وآلہ وسلم ہوتا ہے۔ 
    رایت ربی بعینی وقلبی (مسلم شریف) 
    ترجمہ :۔ میں نے اپنے رب کو اپنی آنکھ اور اپنے دل سے دیکھا دیدارِ الٰہی کا ذکر ایک اور حدیث میں اس طرح فرمایا۔ 
    فخاطبنی ربی ورایتہ بعینی بصری فاوحی 
    ترجمہ :۔ میرے رب نے مجھ سے کلام فرمایا اور میں نے اپنے پروردگار کو اپنے سر کی آنکھوں سے دیکھا اور اس نے میری طرف وحی فرمائی۔ (ملاحظہ ہو صاوٰی صفحہ328 ) 
    حضور صلی اللہ تعالٰی علیہ وآلہ وسلم کے صحابہ حضرت مکرمہ حضرت انس بن مالک اور حضرت حسن رضی اللہ تعالٰی عنہما فرماتے ہیں کہ شبِ معراج حضور صلی اللہ تعالٰی علیہ وآلہ وسلم نے اپنی سر کی آنکھوں سے اللہ تعالٰی کی ذات کا مشاہدہ فرمایا حضرت ابن عباس رضی اللہ تعالٰی عنہ فرماتے ہیں کہ اللہ تعالٰی نے حضرت ابراہیم علیہ السلام کو خلعت، موسٰی علیہ السلام کو کلام اور حضور سیدالمرسلین صلی اللہ تعالٰی علیہ وآلہ وسلم 
    کو اپنے دیدار کا اعزاز بخشا۔ 
    حضرت امام احمد رحمۃ اللہ تعالٰی علیہ نے فرمایا کہ میں حدیث حضرت ابن عباس رضی اللہ تعالٰی عنہ کا قائل ہوں حضور نے اپنے رب کو دیکھا۔ حضرت خواجہ حسن بصری رحمۃ اللہ تعالٰی علیہ قسم کھاتے ہیں کہ حضور اکرم صلی اللہ تعالٰی علیہ وآلہ وسلم نے شبِ معراج اللہ تعالٰی کو دیکھا۔ 
    فخر دو عالم حضرت محمد صلی اللہ تعالٰی علیہ وآلہ وسلم کو شب معراج کے موقع پر اللہ تعالٰی نے تین تحفے عطا فرمائے۔ پہلا تحفہ سورہ بقرہ کی آخری تین آیتیں۔ جن میں اسلامی عقائد ایمان کی تکمیل اور مصُیبتوں کے ختم ہونے کی خوشخبری دی گئی ہے۔ دوسرا تحفہ یہ دیا گیا کہ اُمت محمدیہ (صلی اللہ تعالٰی علیہ وآلہ وسلم) 
    میں جو شرک نہ کرے گا وہ ضرور بخشا جائے گا تیسرا تحفہ یہ کہ اُمت پر پچاس وقت کی نمازیں فرض کی گئیں۔ 
    اللہ تعالٰی کی طرف سے ان تینوں انعامات و تحائف کو لے کر اور جلوہ الٰہی سے سرفراز ہوکر عرش و کرسی، لوح و قلم، جنت و دوزخ، عجائب و غرائب، اسرار و رموز کی بڑی بڑی نشانیوں کا مشاہدہ فرمانے کے بعد جب ہمارے پیارے نبی محمد مصطفٰی صلی اللہ تعالٰی علیہ وآلہ وسلم واپسی کیلئے روانہ ہوئے تو چھٹے آسمان پر حضرت موسٰی علیہ السلام نے دریافت کیا۔ کیا عطا ہوا ؟ حضور صلی اللہ تعالٰی علیہ وآلہ وسلم نے اُمت پر پچاس نماز کی فرضیت کا ذکر فرمایا۔ حضرت موسٰی علیہ السلام نے کہا اے اللہ کے نبی میں نے اپنی قوم (بنی اسرائیل) پر خوب تجربہ کیا ہے آپ کی اُمت یہ بار نہ اٹھا سکے گی۔ آپ واپس جائیے اور نماز میں کمی کرائیے۔ رسول اللہ صلی اللہ تعالٰی علیہ وآلہ وسلم پھر تشریف لے گئے اور دس نمازیں کم کرالیں۔ پھر ملاقات ہوئی اور موسٰی علیہ السلام نے پھر کم کرانے کیلئے کہا۔ حضور صلی اللہ تعالٰی علیہ وآلہ وسلم پھر بارگاہِ الٰہی میں پہنچے دس نمازیں کم کرالیں۔ حضرت موسٰی علیہ السلام  اے محبوب ہم اپنی بات بدلتے نہیں اگرچہ یہ نمازیں تعداد میں پانچ وقت کی ہیں مگر ان کا ثواب دن گنا دیا جائیگا میں آپ کی اُمت کو پانچ وقت کی نماز پر پچاس وقت کی نمازوں کا ثواب دوں گا۔ 
    تفسیر ابن کثیر میں ہے کہ حضور صلی اللہ تعالٰی علیہ وآلہ وسلم براق پر سوار ہوئے اور رات کی تاریکی میں مکہ معظّمہ واپس تشریف لائے۔ (ملاحظہ کیجئے تفسیر ابن کثیر جلد سوئم صفحہ 32)

    پیارے مسلمانو! اس واقعہ میں اللہ تعالٰی کی قدرت کی بڑی بڑی نشانیاں ہیں۔ یہ ساری کائنات جو کہ کارخانہ قدرت ہے، اور اس کارخانہ عالم کا مالک حقیقی اللہ تعالٰی ہے۔ جب اللہ تعالٰی نے اپنے محبوب پیغمبر کو اپنی قدرت کی نشانیاں دکھانے کیلئے بلوایا تو اس میں کتنا وقت لگا اس کا اندازہ ہم نہیں لگا سکتے۔ اللہ تعالٰی جو ہر شے پر قدرت رکھنے والا ہے اس رب کائنات نے اس کارخانہ عالم کو یکدم بند کردیا سوائے اپنے محبوب صلی اللہ علیہ وسلماور ان چیزوں کے جنہیں حضور نے متحرک پایا۔ تمام کائنات کو ٹہرایا، چاند اپنی جگہ تہر گیا۔ سورج اپنی جگہ رک گیا، حرارت اور ٹھنڈک اپنی جگہ ٹہر گئی حضور صلی للہ علیہ وسلم 
    کے بستر مبارک کی حرارت اپنی جگہ قائم رہی، حجرہ مبارک کی زنجیر ہلتے ہوئے جس جگہ پہنچتی تھی وہیں رک گئی۔ جو سویا تھا سو تارہ گیا جو بیٹھا تھا بیٹھا رہ گیا غرض یہ کہ زمانے کی حرکت بند ہوگئی۔ 
    جب سرکار دو عالم صلی اللہ علیہ وسلم راتوں رات ایک طویل سفر طے کر کے زمین پر تشریف لائے تو کارخانہ عالم بحکم الہی پھر چلنے لگا۔ ہر شے ازسر نو مراحل کو طے کرنے لگی، چاند سورج اپنی منازل طے کرنے لگے، حرارت و ٹھنڈک اپنے درجات طے کرنے لگی غرض یہ کہ جو جو چیزیں سکون میں آگئی تھیں مائل بہ حرکت ہونے لگیں بستر مبارک کی حرارت اپنے درجات طے کرنے لگی حجرہ مبارک کی زنجیر ہلنے لگی۔ کائنات میں نہ کوئی تغیر آیا اور نہ ہی کسی کو احساس تک ہوا۔ (ملا حظہ کیجئیے روح المعانی پ 15، صحفہ 12۔ روح البیان جلد 5 صحفہ 125 )
    حضور سرور کونین صلی اللہ علیہ وسلم نے صبح ہوتے ہی اس واقعہ کا ذکر اپنی چچا زاد بہن حضرت ام ہانی سے فرمایا۔ انہوں نے عرض کی قریش سے اس کا تذکرہ نہ کیا جائے لوگ انکار کریں گے۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا میں حق بات ضرور کروں گا میرا رب سچا ہے اور جو کچھ میں نے دیکھا وہی سچ ہے۔ صبح ہوئی تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم خانہ کعبہ میں تشریف لائے۔ خانہ کعبہ کے آس پاس قریش کے بڑے بڑے رؤ سا جمع تھے۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم مقام حجر میں بیٹھ گئے اور لوگوں کو مخاطب کر کے واقعہ معراج بیان فرمایا۔ مخبر صادق حضرت محمد صلی اللہ علیہ وسلم کے تذکرہ کو سن کر کفارہ مشرکین ہنسنے لگے اور مذاق اڑانے لگے۔ ابو جہل بولا کیا یہ بات آپ پوری قوم کے سامنے کہنے کیلئے تیار ہیں۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا بے شک ابو جہل نے کفار مکہ کو بلایا جب تمام قبائل جمع ہو گئے تو حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے سارا واقعہ بیان فرمایا۔ کفار واقعہ سن کر تالیاں بجانے لگے اور اللہ تعالٰی کے محبوب کا مذاق اڑانے لگے۔ ان قبائل میں شام کے تاجر بھی تھے انہوں نے بیت المقدس کو کئی بار دیکھا تھا انہوں نے حضور صلی اللہ علیہ وسلم سے کہا ہمیں معلوم ہے کہ آپ آج تک بیت المقدس نہیں گئے ہیں بتائے اس کو ستون اور دروازے کتنے ہیں۔ حضور صلی اللہ علیہ وسلم
     ارشاد فرماتے ہیں کہ یکایک بیت المقدس کی پوری عمارت میرے سامنے آگئی وہ جو سوال کرتے میں جواب دیتا جاتا تھا مگر پھر بھی انہوں اس واقعہ کو سچا نہ مانا۔
    جب حضور صلی اللہ علیہ وسلم مسجد اقصٰی کے بارے میں جواب دے چکے تو کفار مکہ حیران ہو کر کہنے لگے مسجد اقصٰی کا نقشہ تو آپ نے ٹھیک ٹھیک بتادیا لیکن ذرا یہ بتائیے کہ مسجد اقصٰی جاتے یا آتے ہوئے ہمارا قافلہ آپ کو راستے میں ملا ہے یا نہیں ؟ حضور صلی اللہ علیہ وسلم  انہوں نے کہا ہاں ٹھیک ہے یہ بہت بڑی نشانی ہے۔ پھر حضور  صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ میں بنی فلاں کے قافلے پر بھی گزرا۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔دو آدمی مقام ذی طویٰ میں ایک اونٹ پر سوار تھے ان کا اونٹ میری وجہ سے بدک کر بھاگا وہ دونوں سوار گر پڑے ان میں فلاں شخص کا ہاتھ ٹوٹ گیا جب وہ آئیں تو ان دونوں سے یہ بات پوچھ لینا۔ انہوں نے کہا اچھا یہ دوسری نشانی ہوئی۔ (زرقانی جلد 6صحفۃ 122) 
    ہر قافلہ کے متعلق حضور نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے جو نشانیاں بتائی تھیں جب وہ قافلے واپس آئے اور کفار مکہ نے ان سے دریافت کیا تو انہوں نے تصدیق کی اور حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی بتائی ہوئی ایک ایک نشانی کو صحیح تسلیم کیا مگر اس کے باوجود کفار مکہ ایمان نہ لائے۔(تفسیر مظہری) 
    مگر اہل ایمان نے اس واقعے کی سچائی کو دل سے مانا اور اس کی تصدیق کی۔ ابو جہل حضرت ابو بکر صدیق رضی اللہ عنہ کے پاس دوڑا دوڑا گیا اور کہنے لگا اے ابو بکر تو نے سنا ہے کہ محمد (صلی اللہ علیہ وسلم) کیا کہے ہیں۔ کیا یہ بات تسلیم کی جاسکتی ہے کہ رات کو وہ بیت المقدس گئے اور آسمانوں کا سفر طے کرکے آبھی گئے۔ حضرت ابو بکر صدیق رضی اللہ عنہ فرمانے لگے اگر میرےآقا صلی اللہ علیہ وسلم 
    نے فرمایا تو ضرور سچ فرمایا ہے ان کی زبان پر جھوٹ نہیں آسکتا۔ میں اپنے نبی کی سچائی پر ایمان لاتا ہوں۔ کفار بولے اے ابو بکر تم کھلم کھلا ایسی خلاف عقل بات کیوں صحیح سمجھتے ہو۔ جواب دیا میں تو اس سے بھی زیادہ خلاف عقل بات پر یقین رکھتا ہوں۔ اسی دن سے حضرت ابو بکر کو دربار نبوت سے صدیق کا لقب ملا۔ 
    سفر معراج کے اسرار و رموزکو سمجھنا انسانوں کیلئے ممکن نہیں۔ اصل حقائق تو اللہ اور اس کا محبوب پیغمبر حضرت محمد صلی اللہ علیہ وسلم ہی بہتر جانتے ہیں۔ ہماربے احاطہ علم میں تو صرف یہی بات سمجھ میں آتی ہے کہ سفر معراج حضرات محمد مصطفٰے صلی اللہ علیہ وسلم کا ایسا معجزہ ہے جو اس سے پہلے کسی نبی یارسول کو حاصل نہ ہوسکا۔ یہ حضور سرور کونین صلی اللہ علیہ وسلم کی حیات طیبہ کا ناقابل فراموش اور اہم ترین واقعہ ہے جس میں آپ پر تمام عالمین کے اسرار و رموز اور حقائق کو منکشف کیا گیا۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے یہ سفر جسمانی حالت میں عین حالت بیداری میں کیا۔ کچھ لوگوں کا عقیدہ ہے کہ حضور سرور کونین صلی اللہ علیہ وسلم  ملا احمد جیون  رحمۃ اللہ علیہ ارشاد فرماتے ہیں جو شخص یہ کہے کہ معراج صرف روح کو حاصل ہوئی یا فقط خواب میں معراج ہوئی تو وہ شخص بدعتی، گمراہ کن اور فاسق ہے۔ 
    (ملاحظہ کیجئے تفسیرات احمد یہ صحفہ 329) 
    بعض حضرات جسمانی معراج کے انکار میں ام المومنین حضرت بی بی عائشہ رضی اللہ تعالٰی عنہما کا قول پیش کرتے ہیں کہ وہ روحانی معراج کی قائل تھیں۔ مگر محققین کے نزدیک ان کا یہ قول اس لئے قابل اعتبار نہیں کہ حضرت عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہا سفر معراج کے وقت بہت ہی کمسن تھیں اور اس وقت وہ حضور صلی اللہ علیہ وسلم کے نکاح میں بھی نہیں آئی تھیں۔ (ملاحظہ کیجئے صاوی جلد دوئم صحفہ 235)

    مسلمانو! واقعہ معراج انتہائی اختصار کے ساتھ آپ کی خدمت میں پیش کردیا ہے۔ یہ ایک ایسا سفر ہے کہ جسے سن کر کفار مکہ نے پیغمبر اسلام پر اعتراضات کی بارش شروع کردی۔ کئی ضعیف الاعتقاد لوگوں کے پاؤں بھی ڈمگمگاگئے لیکن جن کے دلوں میں ایمان و یقین کا چراغ روشن تھا انہیں قطعی کوئی پریشانی نہیں ہوئی۔ صحابہ کرام کے نزدیک اس واقعہ کی سچائی کا انحصار اس بات پر نہیں تھا کہ ان کی عقل اس بارے میں کیا رائے رکھتی ہے۔ بلکہ وہ اللہ تعالٰی کی قدرت کے سامنے کسی چیز کو ناممکن خیال نہیں کرتے تھے ان کا یہ ایمان کامل تھا کہ اللہ تعالٰی جو چاہے جس طرح چاہے کرسکتا ہے۔ اسی طرح انہیں اس بات پر بھی یقین کامل تھا کہ جو پیغمبر اس واقعہ کی خبر دے رہا ہے وہ اتنا سچا اور صادق ہے کہ ان کی صداقت کے بارے میں شک و شبہ کا تصور تک نہیں کیا جاسکتا۔ جب اس مقدس نبی نے جن کی صداقت ہر شک و شبہ سے پاک ہے یہ فرما دیا کہ مجھے اس رب نے بلایا ہے جو ہرشے پر قدرت رکھنے والا تو پھر ایسا کون ہے جو اپنے آپ کو مسلمان کہے اور حضور سرورکونین صلی اللہ علیہ وسلم 
    کی بات پر ایمان نہ لائے۔
    حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی معراج در حقیقت ایسی درخشندہ اور تابناک حقیقت ہے کہ عقل انسانی بھی جس کی سچائی کے اعتراف پر مجبور ہے۔ اس کی حقانیت پر دور صحابہ سے لے کر آج تک تمام اہل حق کا اتفاق رہا ہے۔ کفار مکہ، یہود نصارٰی کے سوا کوئی بھی اس واقعہ کا منکر نہیں اور منکر ہو بھی کیسے سکتا ہے۔ جب معراج کرانے والا اللہ ہو۔ کیا اللہ سے بڑھ کر کوئی طاقت و قدرت والا ہوسکتا ہے؟ ہر گز نہیں۔ اسی طرح حضور صلی اللہ علیہ وسلم سے بڑھ کر صلاحیت رکھنے والا کوئی ہوسکتا ہے؟ ہرگز نہیں۔ جب چلانے والا اللہ تعالٰی اور چلنے والے محمد صلی اللہ علیہ وسلم ہیں تو پھر کون ہے جو اعتراض کرے۔ ذرا سوچئے کہ پٹرول سے چلنے والا اور انسان کا بنایا ہوا انجن سیکڑوں من لوہے کے ہوائی جہاز اور راکٹ کو ہزاروں فٹ کی بلندی پر چند منٹوں میں اڑا کر لے جاتاہے اور ایک گھنٹے میں ہزار میل کی رفتار سے فضاء کو چیرتا ہوا چلا جاتا ہے بتائیے اس پر کسی کو تعجب ہوا؟ کسی کا انکار ہوا؟ ہر گز نہیں مگر وہ رب کائنات جو قادر مطلق ہے اگر وہ اپنے محبوب پیغمبر، سیارہ افلاک صلی اللہ علیہ وسلم  دنیا میں ہزار ہا حقائق ایسے ہیں جن تک عقل انسانی رسائی تک نہیں کرسکتی۔ ہماری عقل تو اس قابل بھی نہیں کہ ہماری مرضی پوری کرسکے۔ دور نہ جائیے ایک تاجر کی کاروبار زندگی پر ہی غور کر لیجئے جو اتنی تجارت پر اپنی عقل کا سارا زور لگا دیتا ہے مگر اس کے باوجود بازار کا دام گر جاتا ہے اور کروڑ پتی کا دیوالیہ نکل جاتا ہے اس کی عقل اس کے ہرگز کام نہیں آتی۔ ایک ڈاکٹر اپنی صحت و تندرستی کی خاطر اپنی عقل کی مشنیری کو دن رات مصروف رکھتا ہے مگر اس کے باوجود جب اس پر کسی مہلک مرض کا حملہ ہوتا ہے تو عقل ہرن ہوجاتی ہے۔ سیکڑوں دوائیاں دھری کی دھری رہ جاتی ہیں اور مرض اسے موت کے منہ میں دھکیل دیتا ہے اس طرح عقل کا منہ کالا اور قدرت کا بول بالا ہوجاتا ہے۔ یہاں عقل کی بے بسی اور لاچاری کا اندازہ لگائیے۔ اس قسم کی بیبسیوں مثالیں دی جاسکتی ہیں۔ ذرا سوچئیے جو عقل ہمیں تجارت کے گھاٹے سے نہ بچاسکے جو ہماری بیماری کو دفع نہ کرسکے اس ناقص عقل کو مقام نبوت اور مسائل ربوبیت کا دارومدار ٹہرانا بھلا یہ بھی کوئی عقل کی بات ہے۔ 
    مسلمانو! معراج کا واقعہ جس کا تعلق در حقیقت ایمانیات سے ہے یہاں عقل کے گھوڑے دوڑانے کی ہرگز ضرورت نہیں جو ایسا کرتا ہے وہ ہمیشہ منہ کے بل اوندھا گرتا ہے علماء فرماتے ہیں کہ مکہ سے بیت المقدس تک کے سفر کا انکار کرنے والا کافر ہے اور آسمانوں کی سیر کا انکار کرنے والا گمراہ بد دین ہے۔ (لاحظہ کیجئے اشعۃ اللمعات جلد چہارم ص 527) 
    علامہ سعد الدین مسعود بن عمرار شاد فرماتے ہیں مسجد حرام سے بیت المقدس تک رات میں سیر فرمانا قطعی ہے۔ قرآن مجید سے ثابت ہے اس کا منکر کافر ہے اور زمین سے آسمان تک سیر فرمانا احادیث مشہور سے ثابت ہے اس کا منکر گمراہ ہے۔ (ملاحظہ کیجئے شرح عقائد نسفی ص 101) 
    حضور صلی اللہ علیہ وسلم کو حالت بیدماری میں جسم اطہر کے ساتھ ایک بار اور خواب میں کئی بار معراج ہوئی۔ (ملاحظہ کیجئے اشعۃ اللمعات جلد چہارم ص 527) 
    جو لوگ اللہ تعالٰٰی کی قدرت اور حضور سرورکونین صلی اللہ علیہ وسلم کی رسالت پر ایمان کامل رکھتے ہیں انہیں اپنے ذہنوں کو شک و شبہات سے پاک رکھنا چاہئے اور سفر معراج کو اختلاف کا اکھاڑہ ہر گز نہیں بنانا چاہیئے۔
     


    دعا ہے کہ اللہ تعالٰی علم سے نا آشنا لوگوں کو سفر معراج کو سمجھنے اور اس کی حقیقوں پر ایمان لانے کی توفیق عطا فرمائے۔ آمین