علامہ اقبال رحمة اللہ علیہ نے ایک موقع پر فرمایا :
جب میں سیالکوٹ میں پڑھتا تھا تو صبح اُٹھ کر روزانہ قرآن پاک کی تلاوت کرتا تھا۔ والد مرحوم درود شریف اور وظائف سے فرصت پا کر آتے اور مجھے دیکھ کر گذر جاتے۔
ایک روز صبح کو میرے پاس سے گذرے تو مسکرا کر فرمایا کہ :
کبھی فرصت ملی تو میں تم کو ایک بات بتاؤں گا۔
میں نے دو چار دفعہ بتانے کا تقاضا کیا تو فرمایا کہ :
جب امتحان دے لو گے تب۔
جب امتحان دے چکا اور لاہور سے مکان آیا تو والد صاحب نے فرمایا:
جب پاس ہو جاؤگے تب ۔
جب پاس ہو گیا اور پوچھا تو فرمایا کہ : بتاؤں گا ۔
ایک دن صبح کو جب حسبِ دستور قرآن کی تلاوت کر رہا تھا تو وہ میرے پاس آ گئے اور فرمایا:
"بیٹا ! کہنا یہ تھا کہ جب تم قرآن پڑھو تو یہ سمجھو کہ اللہ تعالیٰ خود تم سے ہم کلام ہے۔"
آہ ! کیا بات کہی اور کیسی بات فرمائی ۔۔۔
لوگ قرآن کو نقالی سے پڑھتے ہیں اور سمجھتے ہیں کہ اس میں اللہ تعالیٰ ہم سے ہم کلام نہیں ۔۔۔
يَا أَيُّهَا النَّاسُ ( اے انسانو )
اور
ترے ضمیر پہ جب تک نہ ہو نزولِ کتاب
No comments:
Post a Comment