Thursday, May 26, 2011

A Short Information About حضرت سیدنا صدیق اکبر رضی الله عنہ خليفہ




              

سيدنا حضرت ابو بکر صديق کا نام عبداللہ لقب صديق اور ابو بکر آپ کي کنيت ہے. آپ کے والد کا نام ابو قحافہ اور آپ کي والدہ کا نام ام الخير سلمي ہے. آپ حضور سے تقريباً 2 سال چھوٹے ہيں. آپ کا سلسلہ نسب ساتويں پشت ميں حضور کے سلسلہ نسب سے مل جاتا ہے. آپ کے فضائل اور کمالات انبياء کرام کے بعد تمام اگلے اور پچھلے انسانوں ميں سب سے اعلي ہيں آپ نے مردوں ميں سب سے پہلے اسلام قبول کيا. آپ زمانہ جاہليت ميں بھي قوم ميں معزز تھے. آپ نے زمانہ جاہليت ميں نہ کبھي بُت پرستي کي اور نہ ہي کبھي شراب پي اسلام قبول کرنے کے بعد آپ تمام اسلامي جہادوں ميں شامل رہے اور زندگي کے ہر موڑ پر آپ شہنشاہ کونين کے وزير اور مشير بن کر آپ کے رفيق و جان نثار رہے. ہجرت کے موقع پر آپ حضور صلي اللہ عليہ وآلہ وسلم کے رفيق سفر اور يارِ غار بھي ہيں حضرت ابو بکر صديق کي شانِ اقدس ميں بہت سي قرآني آيات نازل ہوئي ہيں. آپ کا ايمان تمام صحابہ ميں سب سے کامل تھا. آپ کو بچپن ہي سے بُت پرستي سے نفرت تھي. آپ کے بچپن کا واقعہ ہے کہ ايک مرتبہ آپ کے والد ابو قحافہ (جو بعد ميں اسلام لے آئے تھے) آپ کو بُت خانے لے گئے اور بُتوں کو ديکھ کر کہنے لگے بيٹا يہ تمہارے خدا ہيں انہيں سجدہ کرو يہ کہہ کر ان کے والد بُت خانے سے باہر چلے گئے. حضرت ابو بکر صديق بُت کے قريب گئے اور بُت کو مخاطب کرکے کہنے لگے ميں بھوکا ہوں مجھے کھانا دے بُت کچھ نہ بولا پھر کہا ميں برہنہ ہوں مجھے کپڑے دے بُت خاموش رہا پھر آپ نے ايک پتھر اٹھايا اور بُت سے کہا ميں تجھے پتھر مارتا ہوں اگر تو خدا ہے تو اپنے آپ کو بچا, بُت چپ رہا آخر آپ نے زور سے اسے پتھر مارا اور وہ بُت اوندھے منہ نيچے آ گرا, اسي وقت آپ کے والد بھي بُت خانے ميں آ گئے. انہوں نے جب بُت کو اوندھے منہ گرے ہوئے ديکھا تو بيٹے سے کہا يہ تم نے کيا کيا. حضرت ابو بکر صديق نے فرمايا وہي کيا جو آپ ديکھ رہے ہيں. آپ کے والد غصے ميں انہيں گھر لے آئے اور ان کي والدہ سے سارا واقعہ بيان کيا حضرت ابو بکر صديق کي والدہ اپنے شوہر سے کہا اس بچے کو کچھ نہ کہو کيونکہ جس رات يہ بچہ ہوا اس وقت ميرے پاس کوئي بھي موجود نہ تھا. ميں نے ايک آواز سني کہ کوئي کہہ رہا ہے. اے اللہ کي بندي ! تجھے خوشخبري ہو اس بچے کي جس کا نام آسمانوں پر صديق ہے اور جو محمد کا يار اور رفيق ہے علماء فرماتے ہيں کہ انبياء کرام کے بعد حضرت ابو بکر صديق تمام لوگوں ميں سب سے افضل ہيں. حضور اکرم کا ارشاد مبارک ہے کہ “حضرت ابو بکر صديق لوگوں ميں سب سے بہتر ہيں علاوہ اس کے کہ وہ نبي نہيں“ ايک مرتبہ حضرت عُمر فاروق نے ارشاد فرمايا کہ حضور اکرم کے بعد حضرت ابو بکر صديق اُمت ميں سب سے افضل ہيں حضرت علي فرماتے ہيں اس اُمت ميں رسول اکرم کے بعد سب سے بہتر حضرت ابو بکر اور عُمر ہيں. (تايخ الخلفاء) حضرت ابو بکر صديق نے مردوں ميں سب سے پہلے اسلام قبول کيا آپ حضور اکرم سے بے انتہا محبت فرماتے تھے. حضرت علي فرماتے ہيں کہ لوگ اپنے ايمان کو چھپاتے تھے مگر حضرت ابو بکر صديق اپنے ايمان کو علي الاعلان ظاہر فرماتے تھے. (تاريخ الخلفاء صفحہ 25) حضرت ابو سعيد خذري فرماتے ہيں کہ ميں نے حضور اکرم سے سنا کہ قيامت کے دن تين کُرسياں خالص سونے کي بنا کر رکھي جائيں گي اور ان کي شعاعوں سے لوگوں کي نگاہيں چندھيا جائيں گي. ايک کرسي پر حضرت ابراہيم جلوہ فرما ہوں گے دوسري ميں بيٹھوں گا اور ايک خالي رہے گي. حضرت ابو بکر صديق کو لايا جائے گا اور اس پر بٹھائيں گے. ايک اعلان کرنے والا يہ اعلان کرے گا کہ “آج صديق اللہ کے حبيب اور خليل کے ساتھ بيٹھا ہے“ (شرف النبي امام ابو سعيد نيشاپوري صفحہ 279) سبحان اللہ ! روزِ محشر بھي حضرت ابو بکر صديق کي عظمت اور شان و شوکت کے پھريرے لہرا رہے ہوں گے. لوگ ان کے مقام و مرتبے کو ديکھ کر رشک کر رہے ہوں. حورانِ جنت ان کي عظمت کے ترانے گا رہي ہوں گي ابو داؤد ميں ہے کہ حضور اکرم نے ارشاد فرمايا اے ابو بکر سن لو ميري اُمت ميں سب سے پہلے تم جنت ميں داخل ہوگے. (ابوداؤد) ترمذي شريف ميں ہے کہ حضور اکرم نے ارشاد فرمايا کہ جس کسي نے بھي ميرے ساتھ احسان کيا تھا ميں نے ہر ايک کا احسان اتار ديا علاوہ ابوبکر کے. انہوں نے ميرے ساتھ ايسا احسان کيا ہے جس کا بدلہ قيامت کے دن ان کو اللہ تعالي ہي عطا فرمائے گا . (ترمذي شريف) مسلمانو ! حضرت ابو صديق کا مقام تمام صحابہ ميں سب سے افضل ہے کوئي صحابي ان سے بڑھ کر فضيلت والا نہيں يوں تو آپ کے فضائل بے شمار ہيں جن کو احاطہ تحرير ميں لانا ممکن نہيں مگر چار خوبياں آپ ميں ايسي ہيں جو کسي بھي صحابي ميں نہيں حضرت امام شعبي فرماتے ہيں کہ حضرت ابو بکر صديق کو چار ايسي خوبيوں سے سرفراز فرمايا جن سے کسي کو سرفراز نہيں کيا اول آپ کا نام صديق رکھا اور کسي دوسرے کا نام صديق نہيں , دوئم آپ حضور اکرم کے ساتھ غارِ ثور ميں رہے, سوئم آپ حضور اکرم کي ہجرت ميں رفيقِ سفر رہے, چہارم حضور سرور کونين حضرت محمد نے آپ کو حکم ديا کہ آپ صحابہ کرام کو نماز پڑھائيں تاکہ دوسرے لوگوں کے آپ امام اور وہ آپ کے متقدي بنيں حضرت ابو بکر صديق کي خلافت حضور اکرم کے وصال کے بعد مسلمانوں کو يہ فکر دامن گير ہوئي کہ مسلمانوں کا خليفہ کسے بنايا جائے. بيہقي شريف ميں ہے کہ خلافت کے اس مسئلے کو حل کرنے کے لئے صحابہ کرام حضرت سعد بن عبادہ کے دولت خانے پر جمع ہوئے اور متفقہ طور پر حضرت ابو بکر صديق کو مسلمانوں کا خليفہ مقرر کرديا. تمام مہاجر و انصار صحابہ نے آپ کے دستِ حق پرست پر بيعت کي. حضرت ابوبکر صديق نے اس موقع پر منبر پر کھڑے ہوکر مسلمانوں کے مجمع پر نظر ڈالي تو اس مجمع ميں حضور اکرم کے پھوپھي زاد بھائي حضرت زبير اور چچازاد بھائي حضرت علي نہيں تھے. حضرت ابوبکر صديق نے ان دونوں صحابہ کو بلوايا اور آپ نے فرمايا کہ آپ حضور کے خاص صحابيوں ميں سے ہيں اور اُميد کرتا ہوں کہ آپ مسلمانوں ميں اختلاف پيدا نہيں ہونے ديں گے. يہ سُن کر حضرت زبير نے کہا اے خليفہء رسل آپ ہرگز فکر نہ کريں اور آپ نے حضرت ابو بکر صديق کے ہاتھ پر بيعت کرلي، حضرت علي نے بھي يہي جواب ديا اور آپ کے ہاتھ پر بيعت کرلي. (تاريخ الخلفاء) مسلمانو ! سيدنا حضرت ابو بکر صديق کي 2 سال 3ماہ تک خلافت رہي آپ نے اپنے دورِ خلافت ميں کسي کے ساتھ ناانصافي نہيں کي آپ کا دور اسلامي تاريخ کا سُنہري دور تھا. آپ نے اپنے منصب کا کبھي غلط استعمال نہيں کيا حضور کے وصال کے بعد سے ہي اسلام دشمن يہود و نصاري اس کوشش ميں رہے کہ کسي طرح مسلمانوں کا شيرزاہ بکھر جائے وہ اس تاک ميں لگے رہے کہ کوئي ايسي کمزوري ہاتھ لگے جو مسلمانوں ميں اختلاف کا سبب بن جائے چنانچہ حضرت ابو بکر صديق کے وصال کے بعد اسلام دشمن قوتوں نے اہلبيت اور حضرت ابوبکر صديق کے درميان نفرت پيدا کرنا چاہي اور يہ الزام لگايا کہ انہوں نے اپنے دورِ خلافت ميں حضور اکرم کے ترکہ ميں چھوڑے ہوئے باغ فدک کو غصب کرليا اور حضور کي بيٹي حضرت فاطمہ زہرہ کو نہيں ديا اسلام دشمن قوتوں کا يہ اعتراض مسلمانوں ميں انتشار برپا کرنے کے لئے ہے ورنہ حقيقت تو يہ ہے کہ خاتونِ جنّت حضرت بي بي فاطمہ دنيا کے مال و اسباب کو حقير سمجھتي تھيں اور دنيا کے اسباب کي ان کے سامنے کوئي حيثيت نہ تھي. وہ تو اپنا سب کچھ راہِ خدا ميں لٹا دينے والي تھيں. باغ فدک سے متعلق اسلام دشمن قوتوں کے اعتراض کا جواب يہاں صرف اس لئے ديا جا رہا ہے تاکہ مسلمانوں کو گُمراہي سے بچايا جا سکے. اسلام دشمن قوتوں کے اس اعتراض کي روشني ميں پہلے يہ جاننا ہوگا کہ “باغ فدک“ کيا ہے تاکہ اس اعتراض کے صحيح اور غلط کا اندازہ ہوسکے مدينہ منورہ سے تقريباً ڈيڑھ سو ميل کے فاصلے پر خيبر کے قريب ايک چھوٹے سے گاؤں کا نام فدک ہے اس گاؤں پر يہوديوں کا قبضہ تھا. حضور اکرم خيبر فتح کرنے کے بعد جب لشکر اسلام کے ہمراہ واپس آ رہے تھے تو راستے ميں اہل فدک کو اسلام کي دعوت دينے کے لئے حضور نے محيصہ بن مسعود انصاري صحابي کو تبليغ کے لئے بھيجا, يہوديوں نے صُلح کے طور پر فدک کي آدھي زمين مسلمانوں کو دے دي اس وقت يہ باغ اسلامي سلطنت ميں شامل ہو گيا يہ باغ کھجور کي پيداوار، ٹھنڈے پاني کے چشمے اور اناج وغيرہ کے لئے مشہور تھا. حضور اکرم اس کي آمدني اہل بيت اور مسافروں پر خرچ کرتے ايک حصّہ ازواج مطہرات کے لئے سال ميں استعمال کيلئے ديتے اور جو رقم بچ جاتي اسے غريب و ناداروں ميں تقسيم فرما ديتے مسلمانو ! بعض اسلام دشمن قوتيں علم سے نا آشنا مسلمانوں کو گمراہ کرنے کے لئے يہ پروپيگنڈہ کرتي ہيں کہ سيدنا حضرت ابوبکر صديق نے اپنے دورِ خلافت ميں باغ فدک پر قبضہ کرليا اور اس طرح حضور اکرم کي ميراث کو ان کے وارث اہل بيت کو نہيں ديا. حضور کي لاڈلي بيٹي حضرت فاطمہ نے اپنے والد مکرم کي ميراث کا مطالبہ نہيں کيا اور کہنے لگيں کہ فدک تو ہمارا ہے رسول اللہ ہميں دے کر گئے ہيں ليکن حضرت ابو بکر صديق نے فدک دينے سے منع کرديا اس طرح خاتونِ جنّت بي بي فاطمہ ان سے شديد ناراض ہوئيں اور جيتے جي ان سے گفتگو نہيں کي اور جب ان کے انتقال کا وقت آيا تو انہوں نے يہ وصيت کي کہ ميرے جنازے ميں ابو بکر کو شريک نہ کيا جائے. اس طرح ابو بکر نے حضور کي لاڈلي بيٹي کو ناراض کيا اور ان کو اذيّت دي حضور کا تو يہ فرمان ہے کہ فاطمہ کي اذيّت سے مجھے بھي اذيت ہوتي ہے لہذا ابو بکر نے بي بي فاطمہ کو ہي ناراض نہيں کيا بلکہ پيغمبر اسلام کو بھي ناراض کر ديا يہ وہ اعتراض ہے جسے اسلام دشمن قوتوں نے اٹھايا تھا جسے آج بھي ان کے آلہ کار اٹھاتے ہيں اور بھولے بھالے مسلمانوں کو گمراہ کرتے ہيں.... ... ياد رکھئے ! انبياء کرام کي وراثت درہم و دينار اور دنيا کي جائيداد ہرگز نہيں ہوتي بلکہ ان کي ميراث شريعت کا علم ہے انبياء دنيا ميں نہ کوئي جائداد چھوڑتے ہيں اور نہ اس کا کسي کو اپنا وارث بناتے ہيں? جو کچھ بھي وہ دنيا ميں چھوڑتے ہيں سب صدقہ کر جاتے ہيں حضور اکرم نے ارشاد فرمايا ہم گروہ انبياء کسي کو اپنا وارث نہيں بناتے ہم جو کچھ چھوڑ جاتے ہيں وہ سب صدقہ ہے. (ملاحظہ کيجئے مسلم شريف، بخاري شريف، مشکوہ صفحہ 550) حضور اکرم کے انتقال کے بعد حضور کي ازواج مطہرات نے چاہا کہ حضرت عثمان غني کے ذريعے حضور کے مال سے اپنا حصہ تقسيم کرواليں تو اس موقع پر اُم المؤمنين حضرت عائشہ صديقہ نے فرمايا “کيا حضور اکرم نے يہ نہيں فرمايا ہم کسي کو اپنے مال کا وارث نہيں بناتے ہم جو کچھ چھوڑ جائيں وہ سب صدقہ ہے. (مسلم شريف جلد دوم صفحہ 91) معلوم ہوا کہ حضور اکرم کا چھوڑا ہوا مال اہل خانہ کے لئے جائز نہيں کيونکہ وہ مال صدقہ ہے اگر وہ مال جائز ہوتا تو جب حضرت علي کا دورِ خلافت آيا پھر اس کے بعد حضرت امام حسن کا دروِ خلافت آيا تو باغ فدک ان کے اختيار ميں بھي رہا مگر ان ميں سے کسي نے بھي حضورِ اکرم کي ازواجِ مطہرات يا حضور کے چچا حضرت عبّاس اور ان کي اولاد کو باغ فدک ميں سے حصّہ نہيں ديا جس سے يہ واضح ہو گيا کہ نبي کے ترکہ ميں وراثت نہيں ہوتي اور اہل بيت کے لئے اس کا حصّہ لينا جائز نہيں. يہي وجہ ہے کہ حضرت ابو بکر صديق نے حضرت بي بي فاطمہ کو باغِ فدک نہيں ديا, کيونکہ ان کے لئے وہ جائز نہيں لہذا جو لوگ فدک کے واقعہ کو آڑ بنا کر سيدنا حضرت ابو بکر کو غاصب کہتے ہيں وہ خود غاصب جھوٹے اور صحابي کي شان ميں توہين کرنے والے ہيں لہذا مسلمانوں کو ايسے باطل اور غلط نظريات رکھنے والے گمراہوں سے دُور رہنا چاہئيے مسلمانو ! علماء فرماتے ہيں کہ حضرت بي بي فاطمہ نے باغ فدک کا جب حضرت ابو بکر صديق سے مطالبہ کيا تو اس موقع پر سيدنا حضرت ابو بکر صديق نے حضورِ اکرم کا ايک ارشاد بي بي فاطمہ کو سنايا وہ ارشاد کيا ہے.. آئيے حضرت امام بخاري سے اس حقيقت کو سنئيے. امام بخاري، بخاري شريف ميں اس حقيقت کو يوں بيان فرماتے ہيں کہ حضرت فاطمہ نے حضرت ابو بکر صديق کے پاس ايک آدمي بھيجا اور حضور کي ميراث کا مطالبہ کيا تو جواب ميں حضرت ابو بکر صديق نے کہا اللہ تعالي کے رسول حضرت محمد نے فرمايا ہماري مالي وراثت نہيں ہوتي جو مال ہم چھوڑ جاتے ہيں وہ صدقہ ہوتا ہے . بخدا ميں حضور کے صدقات ميں کوئي تبديلي نہيں کروں گا, جس طرح وہ عہد نبوت ميں تھے ويسے ہي رہيں گے اور ميں ان ميں ايسا ہي کروں گا جس طرح ان ميں حضور کيا کرتے تھے حضرت ابو بکر صديق مذيد فرماتے ہيں کہ اس ذات کي قسم جس کے قبضہ قدرت ميں ميري جان ہے کہ اپنے رشتے داروں کے ساتھ صلہ رحمي سے کہيں زيادہ يہ محبوب ہے کہ ميں اللہ تعالي کے پيارے رسول حضرت محمد کے رشتے داروں کے ساتھ حُسن سلوک کروں. (بخاري شريف جلد اوّل صفحہ 526) مسلمانو ! سيدنا حضرت ابو بکر صديق کے مذکور بالا ارشاد پر غور فرمائيے اور ذرا بتائيے کہ حضرت بي بي فاطمہ کے باغ فدک کے مطالبہ پر حضرت ابو بکر صديق نے جو جواب ديا کيا وہ قابل اعتراض ہے کيا اس جواب ميں بے ادبي کا شائبہ پايا جاتا ہے. ہرگز نہيں. آپ ذرا اس بات پر بھي غور کيجئے کہ حضرت فاطمہ نے باغ فدک کا مطالبہ کس حيثيت سے کيا. اگر کوئي يہ کہے يہ مطالبہ حضور کے انتقال کے بعد بحيثيت وراثت کے کيا تھا تو يہاں قابلِ غور بات يہ ہے کہ وراثت تو مُردے کي تقسيم ہوتي ہے. کيا حضرت فاطمہ نعوذ باللہ حضور کو مُردہ سمجھتي تھيں ؟ ہرگز نہيں, کيونکہ انبياء بعد انتقال بھي زندہ ہوتے ہيں ياد رکھئے ! ذاتي جائيداد وہ ہے جو کسي کو ورثے ميں ملے يا جس نے دن رات محنت مزدوري کرکے اس جائيداد کو خريدا ہو, باغ فدک حضورِ اکرم کو نہ تو ورثے ميں ملا اور نہ ہي آپ نے مال و دولت جمع کرلے اسے خريدا. آپ نے دنيوي دولت جمع نہيں کي بلکہ علم کي دولت لے کر آئے اور علمي وراثت عطا فرما کر دنيا سے تشريف لے گئے. علامہ واقدي فرماتے ہيں جب حضرت ابو بکر صديق کا وصال کا وقت قريب آيا تو آپ نے چند صحابہ کو طلب فرمايا, حضرت عبدالرحمن بن عوف حاضر ہوئے آپ نے فرمايا کہ عمر کے بارے ميں تمہاري کيا رائے ہے حضرت عبدالرحمن بن عوف عرض کرنے لگے ميرے خيال ميں عمر اس سے کہيں زيادہ بہتر ہيں جتنا کہ آپ ان کے بارے ميں خيال فرماتے ہيں پھر امير المؤمنين نے حضرت عثمان غني سے رائے طلب کي حضرت عثمان غني نے جواب ديا کہ عمر کا باطن ان کے ظاہر سے اچھا ہے اور ہم لوگوں ميں ان کا کوئي مثل نہيں. پھر آپ نے حضرت سعيد بن زيد، اسد بن خضير اور ديگر انصار و مہاجرين صحابہ رضي اللہ تعالي عنہما کو طلب فرمايا اور ان کي رائيں طلب کيں جواب ملا کہ آپ کے بعد حضرت عمر سب سے افضل ہيں اور وہ اللہ کي رضا ميں راضي رہتے ہيں اس کے بعد کچھ اور صحابہ کرام بھي آئے ان سے بھي رائے لي پھر اس کے بعد ايک وصيّت نامہ تحرير فرمايا. مسلمانو ! اپنے بعد ميں نے تمہارے اوپر عُمر بن خطاب کو خليفہ منتخب کيا ہے ان کا حکم ماننا اور فرمانبرداري کرنا. پھر اس وصيّت نامہ کو مہر بند کرکے حضرت عثمان غني کے سُپرد کر ديا جسے وہ لے کر لوگوں ميں گئے اور اعلان عام کيا لوگوں نے خوشي خوشي حضرت عُمر فاروق کو خليفہ تسليم کر ليا اعتراض سيدنا حضرت ابو بکر صديق کے بارے ميں بعض اسلام دشمن يہ اعتراض بھي کرتے ہيں کہ “حضور نے اپني حيات ميں کسي کو خليفہ نہيں بنايا مگر ابو بکر خود خليفہ بن گئے اور اپنے بعد عمر کو خليفہ بنا کر حضور کي کھلي مخالفت کي ہے مسلمانو ! اسلام دشمن قوتوں کا يہ اعتراض لغو اور بلا جواز اور بغض و حسد کي بنياد پر ہے. يہ حقيقت ہے کہ حضور اکرم نے سيدنا ابو بکر صديق کو خليفہ نامزد نہيں کيا ليکن يہ بھي حقيقت ہے کہ حضور اکرم اس بات کو وحي الہي کے ذريعے اچھي طرح جانتے تھے کہ ميرے وصال کے بعد حضرت ابو بکر صديق ہي خليفہ ہوں گے اور ميرے صحابہ بھي انہيں ہي خليفہ مقرر کريں گے اور ان کي خلافت کا کوئي بھي مخالف نہ ہوگا, حضور اکرم نے ارشاد فرمايا “اللہ اور مسلمان ابو بکر کے سوا کسي کو قبول نہ کريں گے ايک جگہ اور ارشاد فرمايا ميرے بعد ابو بکر خليفہ ہوں گے (ملاحظہ کيجئے تحفہ اثنا عشريہ) مسلم شريف ميں ہے کہ جب حضور اکرم کے وصال کا وقت قريب آيا تو حضور نے حضرت ابو بکر صديق اور ان کے صاحبزادے کو بلايا کہ خلافت نامہ لکھيں, پھر ارشاد فرمايا کہ اللہ تعالي اور مسلمان ابو بکر کے علاوہ کسي اور کو خليفہ نہيں بنائيں گے لکھنے کي کيا ضرورت ہے پھر آپ نے ارادہ ترک کر ديا (مسلم شريف) معلوم ہوا کہ حضرت محمد کو اس بات کا علم تھا کہ مسلمانوں کے خليفہ اوّل سيدنا ابو بکر صديق ہوں گے اور مسلمان انہيں خليفہ اوّل تسليم کريں گے اسي لئے حضور اکرم نے باقاعدہ آپ کو خليفہ نامزد نہيں کيا سيدنا حضرت عمر فاروق کا خليفہ دوم مقرر کرنا سيدنا حضرت ابو بکر صديق کي فہم و فراست کي وجہ سے تھا, آپ نے اپني فہم و فراست سے اسلام اور مسلمانوں کي بھلائي کے لئے حضرت عمر کو خليفہ منتخب فرمايا آپ نے جو فيصلہ کيا بالکل درست تھا. تاريخ اس بات کي گواہ ہے کہ اسلام کو عروج اور اسلام دشمن قوتوں کو پسپائي جس قدر حضرت عمر فاروق کے دور خلافت ميں آپ کے مقدس ہاتھوں سے ہوئي تاريخ ايسي مثال پيش نہيں کر سکتي سيدنا حضرت ابو بکر صديق نے وفات سے قبل اپني صاحبزادي سيدہ طاہرہ ام المؤمنين حضرت عائشہ صديقہ کو يہ وصّيت فرمائي کہ آج تک ميرے پاس جو مال تھا وہ آج وارثوں کا مال ہو چکا ہے اور ميري اولاد ميں تمہارے دو بھائي (عبدالرحمن بن ابو بکر اور محمد بن ابو بکر) اور تمہاري دو بہنيں ہيں لہذا تم لوگ ميرے مال کو قرآن مجيد کے حکم کے مطابق تقسيم کرکے اپنا اپنا حصّہ لے لينا. حضرت عائشہ صديقہ کہنے لگيں, ابّاجان ميري تو ايک ہي بہن اسماء ہے, يہ ميري دوسري بہن کون ہے? آپ نے فرمايا ميري بيوي بنت خارجہ حاملہ ہيں ان کے شکم ميں لڑکي ہے وہ تمہاري دوسري بہن ہے چنانچہ ايسا ہي ہوا کہ آپ کے وصال کے بعد لڑکي پيدا ہوئي جن کا نام اُم کلثوم رکھا گيا (ملاحظہ کيجئے تاريخ الخلفاء صفحہ 57) معلوم ہوا کہ سيدنا حضرت ابو بکر صديق کو وفات سے پہلے ہي اس بات کا علم ہو گيا تھا کہ آپ اسي مرض ميں وفات پائيں گے اسي لئے آپ نے فرمايا کہ ميرا مال آج ميرے وارثوں کا ہو چکا ہے, دوسري بات يہ بھي معلوم ہوئي کہ ماں کے شکم ميں لڑکا ہے يا لڑکي يہ بات غيبي ہے اور غيب کا علم اللہ کے سوا کوئي نہيں جانتا ليکن جب اللہ اپنے محبوب بندوں کو يہ علم عطا کر ديتا ہے تو وہ عطائے الہي سے غيب کا علم بھي جان ليتے ہيں يہي وجہ ہے کہ حضرت ابو بکر صديق کو موت کا علم بھي تھا اور “ماں کے پيٹ ميں“ لڑکي کا بھي علم تھا. دونوں باتوں کا تعلق غيبي علم سے ہے. جو حضور اکرم کے طفيل اللہ تعالي نے انہيں عطا فرمايا سيدنا حضرت ابو بکر صديق نے وفات سے قبل يہ وصّيت بھي فرمائي کہ مجھے حضور اکرم کے پہلو ميں دفن کيا جائے سيدنا حضرت ابو بکر صديق دو سال تين ماہ گيارہ دن مسند خلافت پر رونق افروز رہے اور 22 جمادي الاخري 13ھ کو آپ نے انتقال فرمايا آپ کي وصّيت کے مطابق لوگ آپ کا جنازہ لے کر حضور اکرم کے حُجرہ کے پاس پہنچے تو لوگوں نے بارگاہِ رسالت ميں عرض کي السلام عليک يارسول اللہ ھذا ابو بکر يارسول اللہ ابو بکر حاضر ہيں يہ عرض کرتے ہي روضہ انور کا بند دروازہ خود بخود کھل گيا اور قبر انور سے آواز آئي, حبيب کو حبيب کے دربار ميں لے آؤ. (تفسير کبير صفحہ 478 جلد پنجم) صَلُّوا عَلَى الْحَبِيْب صَلَّى اﷲُ تَعَالٰى عَلٰى مُحَمَّد 

No comments:

Post a Comment